سانحہ مری۔ حکومت کی قلابازیاں

534

 

سانحہ مری پر حکومت کی جانب سے ہر وضاحت اور ہر اعلان سے اس کی نالائقی اور نااہلی کا اظہار ہورہا ہے۔ پہلے تو سیاحوں اور عوام کو ذمے دار قرار دیا جانے لگا۔ پھر اس کا سلسلہ تھما تو اقدامات اور اعلانات کا سلسلہ شروع ہوا۔ پنجاب حکومت نے سانحے کے ذمے داران کے تعین کے لیے 5 رکنی کمیٹی بنادی ہے اور کمیٹی اور اس کی رپورٹ سے پاکستانی اچھی طرح واقف ہیں۔ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو یاد آیا کہ مری کوئی بڑی اہمیت کی جگہ ہے۔ چناں چہ اب 23 جانوں کے ضیاع کے بعد فرمایا کہ مری کو ضلع بنایا جائے گا۔ اس کی رابطہ سڑکوں کی تعمیر کے لیے فنڈز دینے اور پارکنگ پلازہ تعمیر کرنے کا اعلان بھی کردیا۔ ایک ظلم یہ کیا کہ مزید دو تھانے قائم کیے جائیں گے یعنی لوٹ مار کے لیے مزید عملہ متعین ہوجائے گا۔ اب حقائق سامنے آئے ہیں کہ دو سال سے سڑکوں کی مرمت ہوئی نہ برف ہٹانے کے لیے مشینری تھی۔ ابتدائی رپورٹ تو یہی ہے کہ حکومت نے صبح 8 بجے آپریشن شروع کیا۔ وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے حکم دیا ہے کہ جن ہوٹلوں نے زیادہ کرایہ وصول کیا ان کے خلاف کارروائی کی جائے اور غیر قانونی تعمیرات کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔ ایک بار پھر رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اموات کاربن مونو آکسائیڈ کی وجہ سے ہوئیں۔ یہ ایسا بیان ہے کہ اس کو جہالت ہی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ کوئی حکومتی ذمے دار یہ بتادے کہ جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں اس میں سے سچ کیا ہے ان کو جو بتایا جاتا ہے وہ اسے اگل دیتے ہیں۔ پہلے ایک لاکھ گاڑیاں کہا گیا، لیکن ان کی لمبائی کا جائزہ لیا گیا تو اس حساب سے ملتان تک کی لائن لگنی تھی۔ یہ چار روز کی تعدادتھی اب مونو آکسائیڈ کو الزام دیا جارہا ہے۔ سرکار کے سر میں کوئی مغز نام کی چیز ہی نہیں اور سینے میں دل نہیں ہے۔ اس لیے جو چاہو بولتے رہو۔ شیخ رشید نے کہا کہ کے پی کے سے لوگوں کو آنے سے روک دیا جاتا تو حادثہ نہیں ہوتا۔ یہ لوگ خود اپنے بیانات پڑھیں اور اگر شرم ہو تو سب کو استعفیٰ دے دینا چاہیے۔ عمران خان صاحب کو تو ان کی بیگم بتادیتی ہیں کہ جناب آپ ہی وزیراعظم ہیں۔ شیخ رشید کو کون بتائے گا کہ وہ ہی وزیرداخلہ ہیں۔ یہ بتایا جائے کہ ہزاروں گاڑیوں میں موجود لوگوں کو جمعہ کی شام سے کاربن مونو آکسائیڈ سونگھنے کا شوق آیا تھا کہ وہ سب کے سب گاڑیوں میں جا بیٹھے اور کاربن مونو آکسائیڈ سونگھ سونگھ کر مزے لینے لگے۔ یہ تو پاگل لوگ نہیں تھے لیکن سرکار بتائے کہ لوگ گاڑیوں میں کیوں بیٹھے تھے؟ کس کو شوق تھا قریب کے گورنرہائوس اور فوج کے گیسٹ ہائوسز اور حکومت پنجاب کے گیسٹ ہائوسز میں جا کر پناہ کیوں نہیں لی۔ کل کو یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ کوئی آتا تو ہمارے دروازے کھلے تھے لیکن کس کی مجال ہے۔ حکومت جتنے اقدامات کررہی ہے، جتنی باتیں کررہی ہے اس سے اس کی نااہلی ظاہر ہوتی جارہی ہے۔ ایک بڑی خرابی تو یہ ہے کہ مری بدقسمتی سے بنی گالا میں نہیں ہے، اگر مری کو بنی گالہ میں شامل کردیا جاتا تو یہ حادثہ نہیں ہوتا۔ ثاقب نثار صاحب سے چوک ہوگئی۔ ذرا اس جانب بھی غور کرلیں کہ ہوٹلوں کے کرائے اضافی چارج کرنے کا اب کیوں نوٹس لیا گیا، پہلے انتظامیہ نام کی کوئی چیز تھی کہ نہیں۔ تعمیرات غیر قانونی تھیں تو ہو کیسے گئیں۔ کیا عمران خان اور ان کی پارٹی یہی کہتی رہے گی کہ سب کچھ نواز شریف اور زرداری کی وجہ سے ہوا ہے۔ یہ درست ہے کہ وہ بھی کم نہیں تھے لیکن پی ٹی آئی نے تو ہر طرح ان سے بڑھ کر اپنی نالائقی ثابت کردی ہے۔ مری کو ضلع بنانا جمعہ اور ہفتے سے پہلے کبھی زیر غور ہی نہیںتھا۔ سڑکوں کی تعمیر دو سال سے نہیں ہوئی اب کیوں کررہے ہیں، اس کا مطلب یہی ہے کہ کوئی حکومت نہیں ہے، ہوٹلوں پر گرفت نہیں ہے، سڑکوں پر نظر نہیں ہے، اپنے علاقے کا پتا نہیں ہے کہ کہاں کیا ضرورت ہے، کتنی گنجائش ہے، یہ کس قسم کے لوگ ہیں یا تو لندن، دبئی، امریکا میں رہتے ہیں یا اپنے گائوں کو اور شہر کو اپنے لیے لندن، دبئی اور امریکا بنارکھا ہے۔ ان کو پتا ہی نہیں کہ عام آدمی کیا ہوتا ہے اور اس کی مشکلات کیا ہوتی ہیں۔ اس کا کیا جواب ہوگا کہ جہاں ہر سال برفباری ہوتی ہے وہاں برف ہٹانے کی مشینیں ہی نہیں تھیں۔ کہاں گئیں یہ مشینیں، ممکن ہے شہباز شریف لے گئے ہوں واپس ہی نہ کی ہوں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ پی ٹی آئی کا کوئی وزیر لے گیا ہو اس کی ضرورت تو عوام سے زیادہ ہے۔ اب یہی سننا رہ گیا ہے کہ اس سارے سانحے کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے، وہ پاکستان کی سیاحت کو تباہ کرنا چاہتا ہے، اس قسم کے واقعات سے پاکستان بدنام ہوتا ہے اور ملک میں سیاحوں کی آمد کے امکانات کم ہوجاتے ہیں۔ لیکن حکومت کو یہ بھی نہیں معلوم کہ مری روڈ سے جو لوٹ مار شروع ہوتی ہے وہ مری کے مال روڈ تک جاری رہتی ہے۔ جہاں پولیس ملوث ہے تو وہ باقاعدہ حصہ اوپر پہنچاتی ہے، اس کے علاوہ کئی اور مراحل ہیں جن میں لوگ عام آدمی اور سیاحوںکو لوٹتے ہیں۔