ای او بی آئی پنشن میں اضافہ کیا جائے

856

وزیر اطلاعات فواد چودھری فرماتے ہیں کیا ہوا اگر 3 روپے کی دوائی 7 روپے کی ہوگئی، کونسی قیامت آگئی؟ تو عرض ہے کہ آپ اور آپ جیسے نمک چینی اور گھی خوار جن کے نا صرف باورچی خانے بلکہ اندرونِ خانہ اور بہت کچھ سرکاری خرچ پر چل رہے ہیں بلکہ پل رہے ہیں۔ ان حضرات پر تو کوئی قیامت نہیں آسکتی ہے، قیامت تو EOBI پنشنرز پر آن پڑی ہے۔ جو پہلے ہی مشکل کا شکار تھے کہ روٹی کھائیں یا دوائی۔ اب آپ فرماتے ہیں کیا ہوا اگر تین روپے کی دوائی سات روپے کی ہوگئی تو میرے عزیز تین روپے میں تو ڈسپرین اور پینا ڈول بھی نہیں آتی، سات روپے میں صرف دو یا تین گولیاں آتی ہیں یہاں آپ کا تین اور سات کا حساب تو ہوا بے باک۔ اب آجائیے تین اور سات کے تناسب پر تو یہ فرق تقریباً 120 فی صد بنتا ہے۔ اب حساب کے کچے اور عقل کے پکے ہوئے ذرا غور کریں کہ شوگر، بلڈ پریشر، کولیسٹرول اور جوڑوں کے درد اور معمر حضرات کی متعدد ایسی ہی بیماریوں کی ادویات جو پہلے تین سو روپے میں آتی تھی اب سات سو روپے میں مل رہی ہے۔ فرق اگر تین اور سات کا ہوتا تو کوئی قیامت نہیں آتی، 400 روپے سے تو EOBI پنشنرز پر قیامت پڑنا ہی تھی، پھر فرق 400 کا بھی نہیں ہر پنشنرز تین سے چار قسم کی ادویات استعمال کررہا ہے، اس طرح تو اضافہ پندرہ سولہ سو بن جاتا ہے اور اگر کوئی ایمرجنسی پڑ جائے تو اسپتال جانے کے لیے سواری کی پریشانی۔ پھر اسپتال والے جو کھال ادھیڑتے ہیں اس کا حساب ہی چھوڑیں۔ اب بندہ زندہ ہو یا مردہ بغیر ادائیگی کے گھر واپسی ناممکن ہے۔ اب آپ سمجھیں قیامت کسے کہتے ہیں، آپ کے منہ میں جو آیا اُگل دیا بولنے سے قبل کچھ سوچ بھی لیا کرتے ہیں۔ وزیر فرماتے ہیں کہ ہیلتھ کارڈ کے اجراء کے بعد یہ بحث ہی ختم ہوجاتی ہے کہ دوائی تین روپے کی ملے یا سات روپے کی مگر یہ تو عملدرآمد پر ہی پتا چلے گا۔ آپ کی حکومت نے یہ کارخیر بھی خیراتی صوبوں یعنی خیبرپختونخوا اور پنجاب میں شروع کرنے کی خبر دی ہے اور صوبہ بلوچستان جس کی پسماندگی کا بین کرتے وزیراعظم نہیں تھکتے ہیں بھول بیٹھے ہیں۔ سندھ کے لیے 11 ارب روپے کا پیکیج ان کی محبت کا ثمر ہے۔ ان کی یہ دلیل کہ سندھی عوام کو صرف اس بنیاد پر ہیلتھ کارڈ جاری نہیں کیے جارہے کہ سندھ حکومت کرپشن میں ملوث ہے اور وہ اس میں تعاون نہیں کررہی ہے۔ تو عرض ہے آپ کے اختلافات اپنی جگہ مگر EOBI کا ادارہ تو وفاق کی ملکیت ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس کو سمندر پار پاکستانیوں کی وزارت کے ساتھ جوڑ رکھا ہے۔ یہ جوڑ بھی سمجھ سے باہر ہے کہاں ملک کا غریب مزدور کہاں ڈالر، پونڈ، ریال اور دینار میں اجرت لینے والے جن کی دولت پاکستان پہنچتے ہی بڑھتے ڈالر کی وجہ سے ڈبل ہوجاتی ہے۔ اب ان سے EOBI کے پنشنرز کا کیا جوڑ؟ پہلے زلفی بخاری یہ وزارت دیکھتے تھے تو ان کی سمندر پار پاکستانیوں سے زیادہ فکر EOBI کی ہوتی تھی اور وہ ہمیشہ ہی پنشنرز کی بہتری کے اقدامات کرتے رہتے تھے اور ان کا یہ اعلان بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ EOBI کی پنشن 15 ہزار روپے کردی جائے گی۔ EOBI پنشنرز کے لیے یوٹیلیٹی اسٹور سے مزید 10 فی صد کمی کے لیے سہولت کارڈ کے اجراء بھی اعلان کی حد تک رہ گیا کہ زلفی بخاری نہ رہے اور اب جو بھی وزیر ہیں ان کی نظریں ڈالر اور دینار پر ہیں۔ EOBI پنشنرز کے لیے زبان بندی ہے۔ سیاست ہے تو بری چیز مگر بعض حضرات سیاست میں بھی ایسے کام کرجاتے ہیں جو کہ نہ صرف ان کی مغفرت کا ذریعہ بن جاتے ہیں ساتھ ہی صدقہ جاریہ کا تسلسل بھی جاری رہتا ہے۔ پیپلز پارٹی آج کل تو کرپشن کا شکار ہے مگر اس کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو اپنی سیاسی غلطیوں کے باوجود ختم نبوت کے مسودے پر دستخط کرکے اپنی آخرت سنوار چکے ہیں تو دوسری طرف ای او بی آئی پنشن ان کے لیے صدقہ جاریہ ہے۔ مگر اسے کیا کہیے کہ ان کے بعد آنے والی قیادت نے ان کے فیصلوں سے انحراف کیا، ابتداء میں EOBI کے تین فریق تھے آجر، اجیر اور حکومت وقت پھر پیپلز پارٹی ہی کے دور میں ایک بینظیر مثال قائم کرتے ہوئے اپنی شراکت ختم کردی مگر اس وقت تک EOBI کے پاس اتنا سرمایہ جمع ہوچکا تھا کہ گِدھوں نے نظریں گاڑنا شروع کردیں اور مختلف انداز سے لوٹ مار اور بندر بانٹ کا سلسلہ چل نکلا اور سب سے بڑا ہاتھ خود اس کے سابق چیئرمین ظفر گوندل نے مارا اور 40 ارب روپے کی کرپشن کرکے ملک سے فرار ہوگئے پھر کچھ مک مکائو کرکے واپس آئے اور اب چین کی بانسری بجا رہے ہیں کہ ان کے ایک عزیز جو کہ تحریک انصاف سے منسلک ہیں ان کو انصاف کا یقین دلایا ہے۔ اب یہ سلسلہ بھی چل پڑا ہے کہ ایک بھائی ایک جماعت اور دوسرا بھائی دوسری جماعت میں جو بھی آجائے دونوں مزے ہیں۔ یہ سلسلہ تو یونہی چلتا رہے گا مگر ہمارا رونا تو یہ ہے کہ EOBI پنشنرز کا 8500 روپے پر اٹکا ہوا ہے۔ حکومت وقت جو بھی ہو وہ اس سرمایہ کی امین ہے اس کو اپنا فرض دیانتداری سے ادا کرنا چاہیے۔ ہمیں یہ بھی علم ہے کہ خود اس ادارے کے افسران کی بھاری بھرکم تنخواہوں اور مراعات میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اور غریب پنشنرز عرصہ دراز سے 8500 روپے پر ہی پھنسے ہوئے ہیں۔ راقم الحروف جب 2012ء میں اپنی ملازمت سے ریٹائر ہوا تو اس کی EOBI پنشن 5200 روپے مقرر ہوئی، اس وقت کم از کم اجرت 8000 روپے تھی اور آج کم از کم اجرت 20,000 روپے ہے اور پنشن 8500 روپے ہے، یعنی اجرت میں اضافہ 12000 روپے اور پنشن میں اضافہ صرف 3300 روپے جب کہ سرکاری پنشنرز کی پنشن میں مسلسل اضافہ جاری ہے جس کی ادائیگی قومی خزانے سے ہوتی ہے جب کہ EOBI پنشن میں اضافے سے قومی خزانے پر کوئی بوجھ نہیں پڑتا تو پھر۔ ہم نووارد چیئرمین EOBI سے عرض کرتے ہیں کہ ہماری پنشن کم از کم اجرت کے برابر کرکے اس مسئلے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کردیں، ان کا یہ احسانِ عظیم ان کے لیے صدقہ جاریہ بن سکتا ہے۔ اس کے ساتھ سمندر پار پاکستانیوں کے وزیر سے بھی درخواست کرتے ہیں کہ وہ EOBI کے دم چھلے سے جان چھڑائیں یا پھر EOBI پنشنرز کو بھی اہمیت دیں۔ انہیں ہیلتھ کارڈ کی زیادہ ضرورت ہے کہ ان کی پنشن بھی کم ہے اور وقت بھی کم ہی ہے۔