حکومت سندھ نے حال ہی میں جو نیا بلدیاتی قانون منظور کیا ہے اس کے خلاف جماعت اسلامی نے سندھ اسمبلی کے سامنے دھرنا دینے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔ جماعت اسلامی کا یہ فیصلہ اور دھرنا درحقیقت کراچی کی تمام سیاسی جماعتوں اور شہریوں کے دل کی آواز ہے، کیوں کہ نئے قانون کے تحت بلدیہ کراچی اور اُس کے میئر کو جس طرح سے بے اختیار کیا گیا ہے، اس کے بعد یہ توقع رکھنا کہ بلدیاتی انتخابات کے نتیجے میں کراچی کے مسائل کو حل کرنے میں مدد ملے گی محض خام خیالی ہوگی۔ مرحوم عبدالستار افغانی اور مغفور نعمت اللہ خان جیسے مخلص، دیانت دار اور بااختیار میئر کہ جنہوں نے خدمت کی نئی تاریخ رقم کی تھی ملنا ممکن نہیں ہوگا۔ کیوں کہ جب میئر اور اس کے ارکان کو سوائے جھاڑو لگانے کے کوئی دوسرا اختیار نہیں ہوگا تو ایسے میں یقینا میئر کی شخصیت کتنی ہی فعال، باصلاحیت اور قابل اعتماد ہو یا یہ کہ اس کے ساتھی کتنے ہی پرعزم کیوں نہ ہوں تب بھی ان کی کارکردگی مایوس کن رہے گی۔
کراچی جو ’’منی پاکستان‘‘ ہے جو آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور تجارتی مرکز ہے اس کی ترقی، خوشحالی، خوبصورتی اور امن پورے پاکستان کے اطمینان کے لیے ضروری ہے۔ کراچی نے ہمیشہ تمام ہم وطنوں کے استقبال اور روزگار کے لیے اپنے دروازے کھلے رکھے ہیں۔ علاوہ ازیں اس بات کو بھی ضرور یاد رکھنا چاہیے کہ سندھ ’’باب الاسلام‘‘ ہے، کراچی اس کا دارالحکومت ہے، اہل سندھ کشمور سے کیماڑی تک اہل ِ کراچی کے ساتھ ہیں کیوں کہ کراچی کے بغیر سندھ اور سندھ کے بغیر کراچی کا کوئی تصور نہیں۔ جو لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ اہل کراچی کو تنہا کرکے ان سے ان کے اختیارات اور حق چھین لیا جائے گا تو ایسا کبھی نہیں ہونے دیا جائے گا۔ کراچی میں اگر کسی بے گناہ اور پرامن شہری پر لاٹھی چارج ہوا یا گولی چلی تو اس کا ردعمل ناظم آباد سے جیکب آباد تک ہوگا۔
آج پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت جو ’’چوہے بلی‘‘ کا کھیل کھیل رہی ہے، اس کھیل کا حصہ پی ٹی آئی، ایم کیو ایم اور مسلم لیگ (ن) تو بن سکتے ہیں مگر جماعت اسلامی کی تاریخ اور روایت یہ ہے کہ وہ کبھی بھی کسی غیر جمہوری عمل، کرپٹ اور آمر حکومت کا حصہ نہیں بنی۔ جماعت اسلامی آئینی حقوق اور جمہوری آزادیوں پر یقین رکھتی ہے جب کہ ریاست کے تمام اداروں کو بااختیار اور آئینی حدود کے اندر دیکھنا چاہتی ہے۔ وہ اداروں کے درمیان ٹکرائو اور مداخلت کو حکومت اور ملکی استحکام کے لیے نقصان دہ سمجھتی ہے۔ عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس بھی کئی مرتبہ اپنے ریمارکس میں سندھ حکومت کو ناکام اور نااہل قرار دے چکے ہیں۔ ویسے بھی یہ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ جس سندھ اسمبلی نے بلدیہ کا نیا ’’کالا قانون‘‘ منظور کیا ہے اس کی اپنی حالت یہ ہے کہ اس کے بیش تر ارکان ’’نیب زدہ‘‘ ہیں۔ پولیس کی ڈائری میں ڈاکوئوں کے سرپرست اور پتھارے دار نہیں قانون خود جن کا تعاقب کررہا ہے وہ قانون بنارہے تھیں؟۔
ہمارا حکومت سندھ اور سندھ اسمبلی کے ارکان کو مشورہ ہے کہ وہ ضد اور انا کا مسئلہ نہ بنائیں۔ جماعت اسلامی کی قیادت سے مذاکرات کریں اور کالا قانون واپس لیں۔ اپنی غلطی سے رجوع کرلینا خود پیپلز پارٹی کے مفاد میں ہے۔ بصورت دیگر دبائو اور ٹکرائو کی پالیسی پیپلز پارٹی کی حکومت کا زوال بن سکتی ہے۔ گورنر راج جس کی فائل پہلے سے تیار ہے وہ سامنے آکر وزیراعلیٰ ہائوس کا دروازہ بند کرسکتا ہے۔ اقتدار کی طاقت اور غرور عوام کے صبر اور برداشت کو شکست نہیں دے سکتا۔
بہرحال جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن صاحب اور امیر صوبہ محمد حسین محنتی اطمینان رکھیں سندھ کے عوام کی ان کو مکل حمایت حاصل ہے، جب کہ سنجیدہ عوامی طبقہ بھی اس بات سے اتفاق کرتا ہے کہ سندھ اسمبلی کے باہر پرامن دھرنا اس وقت تک ضرور جاری رہنا چاہیے کہ جب تک نیا بلدیاتی قانون (کالا قانون) منسوخ نہیں کردیا جاتا۔ اللہ پاک ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین ثم آمین۔