چین کے صوبہ سنکیانگ میں مسلمانوں کی نسل کشی اور ان پر انسانیت سوز مظالم کے تناظر میں امریکا نے فروری 2022ء کو ’’بیجنگ اولمپکس‘‘ کے سفارتی بائیکاٹ کا جو فیصلہ کیا ہے وہ ہر حوالے سے انصاف پر مبنی ردعمل ہے کیوں کہ 2014ء میں سنکیانگ کے بیگار کیمپوں اور عقوبت خانوں میں 10 لاکھ اویغور مسلمانوں کو جس ذلت، اذیت اور تکلیف کا سامنا ہے وہ ناقابل برداشت اور ناقابل بیان ہے، جب کہ انسانی حقوق پر نظر رکھنے والا عالمی ادارہ ہیومن رائٹس واچ (HAW) بھی اس بات کی تصدیق کرچکا ہے کہ اویغور مسلمانوں کو ان کے مذہب (دین اسلام) سے زبردستی دستبردار کرانے کے لیے سخت پابندیوں اور تشدد کا سامنا ہے۔ حالاں کہ اس صوبے کی منفرد ثقافتی شناخت اور مذہبی تعارف کا احترام اور اعتراف کرتے ہوئے عوامی جمہوریہ چین کے بانی چیئرمین مائوزے تنگ نے 1955ء میں اس صوبے کو چین کے اندر رہتے ہوئے داخلی خود مختاری اور آزاد حیثیت دے رکھی تھی۔
چین ہمارا قابل اعتماد دوست ہے۔ مسئلہ کشمیر، تائیوان اور فلسطین سمیت اہم بین الاقوامی ایشوز پر اسلام آباد اور بیجنگ کے درمیان مکمل مفاہمت اور انڈر اسٹینڈنگ پائی جاتی ہے۔ پاک چین دوستی دونوں ممالک کی تاریخ کا قابل فخر سنہری باب ہے، تاہم اس بات کو بھی ضرور یاد رکھا جانا چاہیے کہ مسلمان ایک ’’امت‘‘ ہیں لہٰذا جس طرح سے ہم مقبوضہ کشمیر، فلسطین اور بیت المقدس کی بازیابی، آزادی اور خود مختاری کے لیے سرگرم عمل ہیں اِسی طرح سے ہم اویغور مسلمانوں کی مذہبی اور انسانی حقوق کے تحفظ کا بھی مطالبہ کرتے رہیں گے۔ جب کہ اس دوران امریکا سمیت جو ملک بھی سنکیانگ کے مسلم اکثریتی صوبے کے عوام پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز بلند کرے گا، ردعمل دے گا اور مذمت کرے گا تو اس پر یقینا اسلامی دنیا کے مسلم عوام اس ملک کی بھرپور تائید کریں گے اور شکر گزار رہیں گے۔
بہرحال چین جس کے پاکستان سمیت تمام مسلم ممالک کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں اُسے خود اپنے مفاد میں سنکیانگ صوبے کے اندر موجود مسلمانوں کو حراستی کیمپوں سے نہ صرف آزاد کرنا ہوگا بلکہ ان کے شہری حقوق سمیت مذہبی آزادی کو بھی بحال کرنا ہوگا۔ بصورت دیگر چین کی کمیونسٹ پارٹی کی قیادت یہ بات اچھی طرح سے سمجھ لے کہ اویغور مسلمانوں کے حوالے سے امریکا چین کے خلاف مسلم عوام الناس کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ گو کہ یہ بات بھی ہم بخوبی سمجھتے ہیں کہ امریکا چین کے خلاف اویغور مسلمانوں کا معاملہ ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کررہا ہے۔ تاہم عالم اسلام یہ بھی محسوس کررہا ہے کہ امریکا کے درپردہ مقاصد جو بھی ہوں تب بھی اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ امریکا اویغور مسلمانوں کی تکالیف اور مصائب کو عالمی سطح پر جس طرح سے اجاگر اور بیان کررہا ہے وہ کوئی جھوٹ یا پروپیگنڈہ نہیں بلکہ مکمل اور کھرا سچ ہے جس پر یقینا امریکی موقف کی تحسین اور حوصلہ افزائی ہوگی اور ہونی چاہیے۔ ہم امید رکھتے ہیں کہ ’’بیجنگ انتظامیہ‘‘ سنکیانگ صوبے میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اٹھانے جانے والے غیر منصفانہ اور ظالمانہ اقدامات بلاتاخیر واپس لے گی۔