انتخابات کی بھول بھلیوں میں کھو گیا کارواں اپنا

670

کیسی ستم ظریفی ہے کہ وہ ملک جو جمہوریت اور انتخاب کے نتیجے میں معرض وجود میں آیاتھا، وہ انتخاب کی تلاش اور اس کے نت نئے طریقوں کی بھول بھلیوں میں گم ہو گیا۔ ایک تو انتخابات کے لیے آئین کی تلاش میں اس ملک کو 9 سال گزر گئے۔ 1956میں پہلے آئین کی منظوری کو 2سال ہی ہوئے تھے کہ اس پر فوجی طالع آزما نے قبضہ کر لیااور اپنی حکمرانی کو دوام بخشنے کے لیے بنیادی جمہوریت کا نیا طریقہ انتخاب نافذ کیا۔ اسی بنیادی جمہوریت کے تحت 1965میں فوجی آمر ایوب خان نے محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف صدارتی انتخاب لڑاجس میں 80ہزار بنیادی ڈیمو کریٹس نے ووٹ دیے اور ایوب خان کو جتا دیا۔ فوجی آمر کو62 فی صد ووٹ ملے اور قائد اعظم کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کو 35 فی صد۔ اس انتخاب میں حکومت کے عمل داروں نے کھلم کھلا مداخلت کی اور عوام نے اس انتخاب کے نتیجے کو دل سے قبول نہیں کیااور انتخاب کے اس طریقہ کار پر ان کا اعتماد نہیں رہا۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کی قسمت انتخابات سے وابستہ رہی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد 1970تک ملک میں کوئی براہ راست ملک گیر انتخاب نہیں ہوا۔1970 کے انتخابات میں مشرقی بنگال میں عوامی لیگ کی فتح نے ملک کو دو لخت کرنے کے فیصلہ پر مہر ثبت کردی مشرقی بنگال کے عوام نے جب یہ دیکھا کہ مغربی پاکستان میں فوج غالب آگئی ہے جو ان پر حکمرانی کرے گی تو انہوں نے مغربی پاکستان سے قطع تعلق کی راہ اختیار کی۔
بنگلہ دیش کے قیام کے بعد ایک طویل جدوجہد کے بعد جب ملک میں جمہوریت بحال ہوئی تو 1973سے 2013تک لشتم پشتم سات انتخابات ہوئے جب کہ حکومتوں کی پانچ سالہ معیاد کے اعتبار سے کم سے کم 9 انتخابات ہونے چاہیے تھے۔
قیام پاکستان کے بعد یہ عوام کی بدقسمتی رہی ہے کہ وہ ایک طویل عرصہ تک جمہوری عمل سے محروم رہے ہیں پھر بڑا عذاب ہے کہ جو بھی فوجی طالع آزما آیا اس نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے اپنے انداز کی جمہوریت میں ملک کو ڈھالنے کی تجربہ گاہ میں تبدیل کردیا نتیجہ یہ ہوا کہ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم۔
یہ کیسی بد قسمتی ہے نصف صدی میں جب کہ ملک میں کم از کم 10 عام انتخابات ہوتے، لے دے کر ادھ کچے ادھ پکے صرف 6 انتخابات ہوئے جنہیں کسی طور جمہوی انتخابات نہیں کہا جا سکتا۔ فوجی آمر جنرل مشرف نے اپنے دور میں حقیقی جمہوریت قائم کرنے کا دعویٰ کیا تھااور پڑھے لکھوں کی جمہوریت کے قیام کے لیے امیدواروں کے لیے گریجویشن کی شرط عائد کی تھی۔ اس کے علاوہ امیدواروں پر مہم کے دوران کڑی پابندیاں عائد تھیں کہ وہ فوج اور عدلیہ پر کوئی تنقید نہیں کر سکتے تھے۔ یہ پابندی جمہوری انتخابات سے کسی طور لگا نہیں کھاتی۔
جنرل ضیا نے پارٹیوں کے بغیر مجلس شوری کے انتخا ب ا ور متناسب نمائندگی کی تجویز پیش کی۔
اب عالم یہ ہے کہ ملک میں عام انتخابات اس وقت تک ممکن نہیں ہو سکتے جب تک کہ فوج کی مدد نہ لی جائے۔ الیکشن کمیشن نے واضح طور پر کہا ہے کہ انتخابات کے لیے فوج کی مدد طلب کی جائے گی۔ فوج کی مدد لینے سے فوج کی مداخلت کے الزام لگنے کا خطرہ ہر لمحہ منڈلاتا رہتا ہے۔
انتخابات کے سلسلے میں ایک نیا مسئلہ الیکٹرونک ووٹنگ کا کھڑا ہو گیا ہے۔ حکومت بضد ہے کہ وہ اگلے انتخابات الیکٹرونک ووٹنگ سے کرائے گی، لیکن الیکشن کمیشن کو اس سلسلے میں تحفظات ہیں۔ ایک تواس بنا پر یہ ٹیکنالوجی قابل بھروسا نہیں اور ملک کے دور درازکے گائوں میں ان الیکٹرونک مشینوں کا استعمال بہت مشکل ہوگا۔ حکومت یہ جانتے ہوئے کہ دنیا کے بہت سے ملکوں میں جو ٹیکنالوجی میں بہت آگے ہیں اس الیکٹرونک طریقہ کو نہیں اپنایا گیا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے حکمراں بلا سوچے سمجھے بس دوسروں ملکوں کی تقلید میں ان نئے چونچلوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔ جمہوریت کے سلسلے میں پارلیمنٹ کی بالا دستی کو جو فوقیت دینی چاہیے اس طرف قطعی کوئی توجہ نہیں۔ حکومت کو پارلیمنٹ میں جس طرح جواب دہ ہونا چاہیے۔
ہندوستان کو آپ پسند نہ کریں مگر سن ستر کے عشرہ میں جب میں دلی میں روزنامہ جنگ کا نمائندہ تھا تو میں نے یہ دیکھا کہ کس طرح نہرو کے زمانہ میں پارلیمنٹ کو اہمیت حاصل تھی۔ جو بھی اہم اعلان کیا جاتا تھا وہ پارلیمنٹ کے اندر کیا جاتا تھا۔ وزیر اعظم ہر روز بارہ بجے سوالات کے وقفہ میں پارلیمنٹ میں اپنی نشست پرموجود ہوتے تھے۔ پارلیمنٹ کی یہی اہمیت میں نے لندن میں دیکھی۔ سچ بتائوں لندن کی پارلیمنٹ کو دیکھ کر دل مسوس کے رہ جاتا ہے کہ کاش ہماری پارلیمنٹ کا بھی یہی جمہوری انداز ہو۔
بہر حال ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انتخابات اور اس کے طور طریقہ کار کی بھول بھلیوں میں ہمارا کارواں کھو گیا ہے اور ان لوگوں کی کاوشوں پر پانی پھر گیا ہے جنہوں نے اس ملک کے قیام کے لیے 1946 کے عام انتخات میں پاکستان کی تحریک کو فتح سے رو شناس کرایا تھا۔