فوج اس لیے ہے کہ فوج ہی ہے

1049

ملک کے دفاعِ کا سوال ہو یا مملکت کے انتظامی امور کا۔ سماواتی آفتیں ہوں یا امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال۔ انتخابات کا مرحلہ درپیش ہو یا منتخب ہو جانے والی حکومت کی کرپشن کی کہانیاں۔ المختصر یہ کہ آندھی، طوفان، سیلاب ہو یا زلزلے کی تباہ کاریاں۔ پاک افواج ہر ہر ہنگامی صورتِ حال کے موقع پر سب سے نمایاں اور ہرمصیبت سے نمٹنے کے لیے تیار و آمادہ دکھائی دیتی ہیں۔ چناں چہ کہیں آگ لگ جائے تو پاک فوج کے جوان موجود، جلسے جلوس ہو رہے ہوں تو پاک فوج مستعد، سیاسی میدان سجائے جا رہے ہوں پاک فوج ضروری، حد یہ ہے کہ اگر کھیلوں کا انعقاد ہو تب بھی کھلاڑیوں کی حفاظت اور کسی بھی قسم کے غیر معمولی حالات سے نمٹنے کے لیے پاک فوج ہی ہر جانب کھڑی نظر آتی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ملک میں ہر قسم کے حالات سے نمٹنے کے لیے پاکستان میں ایسے ادارے موجود نہیں جو حالات سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ جنگی صورت حال کے علاوہ کسی ملک میں بھی ایسا نہیں ہوتا کہ فوج شہروں میں نظر آئے کیونکہ یہ کام ہر ملک کی پولیس کا ہوتا ہے۔ حالات اگر قابو سے باہر ہوجائیں یا ہنگامے عفریت کی شکل اختیار کر جائیں تو افواج کی مدد ضرور لی جاتی ہے لیکن نہایت مختصر مدت کے لیے۔ جونہی حالات ٹھیک ہو جاتے ہیں تو فوج اپنے اصل فرائض منصبی کی جانب لوٹ جاتی ہے۔ ملک میں سیلاب آجائے، کوئی اور غدر مچ جائے، آگ لگ جائے، انتخابات کا انعقاد ہو، کھیلوں کے پرگرام ہوں یا کوئی آفتِ نا گہانی کا سامنا ہو تو ہر ملک میں ایسے ادارے موجود ہوتے ہیں جو اس قسم کے حالات سے نمٹنے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں۔
دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی ہرشعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ادارے اور محکمے موجود ہیں۔ پولیس بھی موجود ہے، فائر فائٹنگ کا مکمل عملہ بھی موجود ہے، مجرموں کی سر کوبی کے لیے خاص فورسز بھی موجود ہیں، مریضوں اور زخمیوں کو لانے لے جانے والی تنظیمیں بھی موجود ہیں اور ہر قسم کی ترسیلات کے محکمے بھی جو دن رات اپنے فرائض ادا کرنے کے لیے مستعد و آمادہ نظر آتے ہیں۔ ان سب کے ہونے کے باوجود کیا وجہ ہے کہ معمول کے حالات میں بھی ہر جگہ متعلقہ اداروں اور محکموں کے عملے کے بجائے پاک فوج کے جوان ہی کیوں سر گرم نظر آتے ہیں۔ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ماضی کی ساری حکومتوں سے لے کر موجودہ حکومت تک، سب سے پوچھا جانا چاہیے۔
پاکستان میں عام پولیس سے لے کر پولیس سے وابستہ سارے ادارے ہوں یا دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی تنظیمیں اور محکمے، اگر وہ فعال نہیں ہیں، ان کی تربیت اس معیار کے مطابق نہیں ہے جس مقصد کے لیے انہیں بنایا گیا ہے یا ان کو ایسے سارے وسائل فراہم نہیں کیے گئے ہیں جن کی ضرورت ان کے فرائض منصبی سے مطابقت رکھتی ہو تو ایسا سب کچھ کرنے کی ذمے داری کس کی بنتی ہے؟۔
عوام کے جان و مال کی حفاظت، ان کے لیے روز گار کے مواقع مہیا کرنا، امن و امان کی صورتِ حال کو قابو میں رکھنا، مجرموں کی سر گرمیوں پر نہ صرف نظر رکھنا بلکہ ان کی سرکوبی کرنا، آندھی، طوفان، سیلاب اور زلزلوں کی تباہ کاریوں جیسے حالات سے نہ صرف نمٹنا بلکہ ان پر بہر صورت قابو پانا حکومت کے فرائض میں شمار ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ بات ضروری ہے کہ ملک میں موجود جتنے بھی محکمے اور ادارے متعلقہ مقاصد کے حصول کے لیے تشکیل دیے گئے ہیں ان کو ان کے فرائض کے مطابق بنانا ہر حکومت کی اولین ذمے داریوں میں شامل ہے۔
پاکستان میں ہر قسم کے شعبے، محکمے اور ادارے ہونے کے باوجود بھی اگر معمولی معمولی واقعات کے وقت بھی ہر مقام پر افواج پاکستان ہی ہراول دستے کی صورت میں دوڑتی بھاگتی نظر آئیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر اتنے بہت سارے شعبوں، محکموں اور اداروں کی ضرورت ہی کیا ہے۔
حال ہی میں ایک نیشنل سیکورٹی پالیسی بنائی گئی ہے۔ یہ پالیسی پاک فوج کی اعلیٰ قیادت نے حکومت کے چند اعلیٰ عہدیداروں کی مشاورت سے بنائی ہے جس کو ایک مستحسن قدم کہا جا سکتا ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ ایک پارلیمانی نظام کے ہوتے ہوئے کسی بھی قسم کی کوئی پالیسی چند گھنٹوں میں تیار کی جا سکتی ہے تو پھر ملک میں سیکڑوں کی تعداد میں وزیر، مشیر، صوبائی و قومی اسمبلی کے ارکان اور سینیٹرز کی فوج ظفر موج رکھ کر ملک کے خزانوں پر بھاری بوجھ ڈالنے کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے۔
جب ملک کی سرحدوں کی حفاظت بھی افواج پاکستان ہی کو کرنی ہے، شہروں کے امن کو بھی افواج ہی کو دیکھنا ہے، زلزلے، آندھی، طوفان اور سیلاب کی تباہ کاریوں کو بھی ان ہی کو سنبھالنا ہے، جلسوں، جلوسوں میں کسی امکانی گڑبڑ پر نظر رکھنا بھی ان ہی کی ذمے داری ہے اور حد یہ ہو کہ کھیلوں کے انعقاد کے موقع پر بھی ان کے بغیر دال نہ گلتی ہو تو پھر کیا سول حکومتیں مہا رانیوں کی طرح صرف عیش لوٹنے کے لیے تشکیل پایا کرتی ہیں۔
پاکستان میں فوج کے علاوہ اگر دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے محکمے اور ادارے فعال نہیں ہیں تو اس کی صرف ایک ہی وجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ حکومت کے کسی بھی محکمے یا شعبے میں بھرتی کے وقت کبھی کسی قسم کی اہلیت کا خیال ہی نہیں رکھا جاتا۔ کئی دہائیوں سے ہر محکمے میں رشوت، سفارش اور سیاسی وابستگیوں کی بنیاد پر بھرتیاں کی جاتی رہی ہیں۔ واحد ایک فوج کا ادارہ ایسا ہے جہاں ذاتی قابلیت کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں جس سے گزر کر افواج کی صفوں میں داخل ہوا جا سکے۔ لہٰذا ہر جگہ فوج اس لیے ہے کہ فوج ہی ہے۔ حکومتیں یا کوئی بھی پاک افواج کی جانب انگلیاں اٹھانے کے بجائے اداروں کو فعال و مضبوط بنائیں اسی میں پاکستان کی مضبوطی اور ترقی کا راز مضمر ہے۔ ورنہ پاکستان کے جو بھی حالات ہیں وہ اظہر من الشمس ہیں۔