لاپتا افراد کا مسئلہ قانون کی حکمرانی یقینی بنا کر ہی حل کیا جاسکتا ہے

453

لاہور (رپورٹ: حامد ریاض ڈوگر) لاپتا افراد کا مسئلہ بہت پیچیدہ اور الجھا ہوا ہے، فریقین کی جانب سے اس ضمن میں بہت زیادہ مبالغہ بھی کیا جاتا ہے اور اس معاملہ میں سیاست کا بھی خاصا عمل دخل ہے، اس کو حل کرنے کے لیے اداروں اور ایجنسیوں کو حکمت عملی تبدیل کرنا اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانا ہو گا اور ریاست کو اس معاملہ میں شفافیت لانا ہو گی۔ ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل امیرالعظیم ، روزنامہ پاکستان کے چیف ایڈیٹر، انجمن مدیران جرائد کے سابق صدر مجیب الرحمن شامی اور سیاسی تجزیہ نگار و کالم نویس سلمان عابد نے ’’جسارت‘‘ کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’پاکستان میں لاپتا افراد کا مسئلہ کیوں حل نہیں ہو پا رہا؟‘‘ ’’جسارت‘‘ کے استفسار پر جماعت اسلامی پاکستان کے سیکرٹری جنرل امیر العظیم نے کہا کہ اس کا اہم سبب یہ ہے کہ بیورو کریسی اور ایجنسیوں کو جنرل پرویز مشرف کے دور سے من مانی کرنے کی عادت چلی آ رہی ہے اس میں انہیں امریکا کی آشیر باد بھی حاصل تھی اس دور میں دہشت گردی کے نام پر لوگوں کو اٹھا کر غائب کرنے کی شکایات بہت زیادہ تھیں جو اب کم ہو گئی ہیں اور امید ہے کہ رائے عامہ، ذرائع ابلاغ اور سب سے بڑھ کر عدالتی دبائو کی بدولت یہ مسئلہ عنقریب ضرور حل ہو جائے گا۔ حالات بدل جانے کے بعد اب اسٹیبلشمنٹ اور ایجنسیوں کو بھی اس معاملہ میں از سر نو غور کرنا چاہیے اور حکمت عملی تبدیل کرنا چاہیے۔ اس مسئلہ کو قانون کی حکمرانی کے ذریعے ہی حل کیا جا سکتا ہے۔ انجمن مدیران جرائد کے سابق صدر روزنامہ پاکستان کے مدیر اعلیٰ مجیب الرحمن شامی نے ’’جسارت‘‘ کے سوال کے جواب میں بتایا کہ یہ مسئلہ خاصا پیچیدہ ہے، پاکستان دہشت گردی کے ایک خطرناک دور سے گزرا ہے پاکستان کے ہمسائے میں بڑی طویل جنگ لڑی گئی ہے، پہلے روس اور پھر نیٹو افواج افغانستان پر حملہ آور رہیں، اس دوران بعض لوگ جہاد کرنے اور لڑنے کے لیے گھر والوں کو بتائے بغیر چلے گئے، کچھ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے ٹکرائے اور ان کی کارروائیوں کا نشانہ بنے پاکستان جن غیر معمولی حالات سے گزر ا ہے ان کے غیر معمولی اثرات اور نتائج مرتب ہوئے ہیں، بلاشبہ یہ صورت حال اطمینان بخش نہیں اور شکایات موجود ہیں کہ لوگ گھروں سے غائب ہوئے ہیں، کون کیوں اور کس طرح غائب ہوا، کوئی خود گیا یا اسے اٹھایا گیا، کس نے اٹھایا ؟کیوں اٹھایا، یہ سب تحقیق طلب معاملات ہیں، توقع ہے کہ جوں جوں امن و امان کی صورت حال بہتر ہوتی جائے گی، ان شکایات میں بھی کمی آئے گی اور لاپتا افراد کا مسئلہ حل کی جانب بڑھے گا۔ معروف تجزیہ نگار سلمان عابد نے لاپتا افراد کے مسئلہ سے متعلق سوال پر کہا کہ ان افراد کی تعداد سے متعلق بہت زیادہ مبالغہ اور سیاست کی گئی ہے کچھ غائب افراد کی تعداد ہزاروں میں بتاتے ہیں جب کہ کچھ کا کہنا ہے کہ یہ صرف چند سو افراد ہیں، جتنی بڑھا چڑھا کر یہ تعداد بیان کی جاتی ہے، اتنی نہیں، اس سلسلے میں یہ تصور بھی بنا دیا گیا ہے کہ انہیں ایسٹبلشمنٹ نے غائب کیا ہے جب کہ ایسٹبلشمنٹ اس سے انکاری ہے اور اس کا موقف ہے کہ جو لوگ ہمیں مطلوب نہیں انہیں پکڑنے کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں، کچھ لوگ لائے گئے اور انہیں تحقیقات کے بعد بے گناہ پایا گیا تو فارغ کر دیا گیا، یا ان پر مقدمات بنائے گئے۔ سلمان عابد نے کہا کہ اس ضمن میں اہم اور بنیادی بات یہ ہے کہ یہ قطعی غلط ہے کہ ریاست کسی کو پکڑے مگر اس کے خاندان والوں اور والدین تک کو اس بارے میں کچھ نہ بتایا جائے ریاست اگر کسی کو پکڑتی ہے تو وہ اس کے متعلقین کو بتائے کہ وہ ہمارے پاس موجود ہیں اور ان سے تحقیق و تفتیش ہو رہی ہے ان کے اہل خانہ کو ان سے ملاقات کا حق بھی دیا جانا ضروری ہے۔ در اصل اس ضمن میں ابہام بہت زیادہ ہے، اس کی آڑ میں بہت سی دشمنیاں بھی نکالی گئی ہیں اور یہ افراد بھی اسی کھاتے میں ڈال دیئے گئے ہیں اس طرح یہ معاملہ آسان نہیں بلکہ بہت پیچیدہ اور سنگین صورت اختیار کر چکا ہے، ریاست خود اس سلسلے میں شفافیت لائے تو بہتری آ سکتی ہے، جس شخص کو پکڑا جائے اس کا واضح اعلان کیا جائے، قانون کے تحت مقدمہ کا اندراج بھی کیا جائے پھر ایسے افراد کو سالہا سال زیر تفتیش رکھنا بھی کسی طرح مناسب نہیں اس سے یہ معاملہ زیادہ سنگین ہو گیا ہے ریاست کو اس مسئلہ کے حل کی جانب سنجیدگی سے توجہ دینا ہو گی اور قانون کی پابندی سب کے لیے لازم ہونا چاہیے تب ہی یہ مسئلہ حل ہو پائے گا۔