لن ترانی کے اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے فواد چودھری نے مولانا ابو الکلام آزاد اور مولانا مودودی کا ذکر کیا، اور حسب توقع تاریخی پس منظر اور حقائق کو مسخ کرکے پیش کیا، مولانا ابولکلام آزاد جنہیں امام الہند بھی کہتے ہیں، ابتدا ہی سے انڈین نیشنل کانگریس کے رکن تھے، محمد علی جناح بھی ابتداً انڈین نیشنل کانگریس کے رکن تھے، مولانا آزاد تقسیم ہند کے بلند بانگ مخالف تھے، مگر وہ اسلام کی حقانیت کے کلی طور پر قائل اور مغرب سے درآمد تازہ جدیدیت کے سخت ناقد تھے، معلوم نہیں کہ فواد چودھری نے مولانا ابوالکلام آزاد کی کتنی اور کون سی کتب کا مطالعہ کیا ہے، مگر جو لوگ مولانا کے سیاسی اور مذہبی رجحانات اور ان کی تحریروں اور عملی جدوجہد سے واقفیت رکھتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ مولانا نے جس وقت انگریز سامراج اور سماج کے خلاف لکھنا شروع کیا اس وقت ہندوستان کا ایک بڑا طبقہ انگریز کی غلامی پر راضی برضا تھا بلکہ انگریزی تہذیب سے اس قدر متاثر تھا کہ اسلامی اصول و مبادی میں تحریف کر کے اسے جدید علوم سے ہم آہنگ کرنے کی باتیں کرتا تھا۔ مولانا اسلام کو ایک مکمل ضابطہ حیات سمجھتے تھے اور دین و دنیا کی تفریق کے قائل نہ تھے، وہ سمجھتے تھے کہ مسلمانوں کی بقا اسلام سے جڑے رہنے اور اسلام پر قائم رہنے میں ہے۔ تاہم مولانا کا ماننا تھا کہ مسلمانانِ ہند کا مستقبل متحدہ ہندوستان سے وابستہ ہے، اور تقسیم ہندوستان دراصل مسلمانوں کی قوت اور اجتماع کو تقسیم کرنے کا منصوبہ ہے، یہ سیاسی فہم اور تاویل کا اختلاف تھا، جس کے درست یا غلط ہونے پر تو بات ہو سکتی ہے، مگر یہ کہنا کہ مولانا ابو الکلام آزاد مسلمان ریاست ہی کے قائل نہیں تھے، تاریخ کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ یہی نظریہ جمعیت علماء ہند کا بھی تھا۔ ان میں کوئی بھی اسلامی ریاست کے وجود کا منکر نہ تھا، مگر ہندوستان کے معروضی حالات میں تقسیمِ ہند کا مخالف تھا۔
مولانا مودودی کا معاملہ اِن دونوں سے الگ تھا، مولانا مودودی علامہ اقبال طرح علامہ شبلی نعمانی کے فکری کام کو لے کر آگے بڑھے، وہ مولانا آزاد کی طرح متحدہ ہندوستان کے قائل نہ تھے، ان کی تصنیفات نے متحدہ ہندوستان کے بت کو پاش پاش کرکے رکھ دیا تھا، ان کی تحریروں نے قطعیت کے ساتھ ثابت کردیا کہ مسلمان اور ہندو دو الگ الگ قومیں ہیں، اور تنگ نظر ہندو اکثریت مسلمانوں کے لیے زہر قاتل تھی، اور مسلمانوں کے تاریخی، ثقافتی اور مذہبی وجود کے لیے خطرہ تھی، اْن کی کتاب مسلمانان ہند اور موجودہ سیاسی کشمکش آل انڈیا مسلم لیگ چھپوا کر مقدمہ پاکستان کے طور پر مفت تقسیم کرتی رہی۔ اس موضوع پر اتنی مدلل اور مفصل کتاب اس سے پہلے اور بعد لکھی ہی نہیں گئی۔ علامہ اقبال اْن کی تحریر الجہاد فی الاسلام پڑھ کر اس قدر متاثر ہوئے کہ مولانا مودودی کو اشتراک عمل کی دعوت دی، اور علامہ اقبال ہی کے ایما پر مولانا مودودی نے پٹھان کوٹ میں ایک تعلیمی اور تربیتی پروجیکٹ کی بنیاد ڈالی، افسوس کے علامہ اقبال 1938 میں اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے، اور یوں مولانا مودودی تنہا رہ گئے، علامہ کی وفات کے چار سال بعد 1942 میں مولانا مودودی نے اْسی درس گاہ میں جماعت اسلامی کی داغ بیل ڈالی، اور تقسیم ہند کے بعد وہ مستقلاً سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر مغربی پاکستان کے شہر لاہور منتقل ہو گئے، حالانکہ ان کا آبائی علاقہ حیدرآباد دکن، ان کا دوسرا مستقر دہلی اور ان کی درس گاہ کا علاقہ پٹھان کوٹ بھارت میں شامل تھے، اگر وہ قیامِ پاکستان کے مخالف ہوتے تو بھارت ہی میں سکونت اختیار کر کے اپنا کام جاری رکھتے، جیسا کہ ابوالکلام آزاد اور جمعیت العلمائے ہند کے اکابرین نے کیا، اور سب کچھ قربان کر کے پاکستان منتقل نہ ہوتے۔ قیام پاکستان سے پہلے قائد اعظم نے اْنہیں مسلم لیگ میں شمولیت کی دعوت دی، اور قیام پاکستان کے بعد اولین برسوں میں قائد اعظم کے حیات ہوتے ریڈیو پاکستان مولانا کے درس اور انٹرویو نشر کرتا رہا، قرار داد مقاصد کی تیاری اور اسے آئین کا حصہ بنانے میں مولانا کا کردار نہایت اہم تھا، ان کا آل انڈیا مسلم لیگ سے اختلاف اس نکتے پر تھا کہ مسلم لیگ کے پاس جو ٹیم تھی وہ خود اسلامی علوم سے نابلد تھی، مولانا یہ سمجھتے تھے کہ اگر ایسی ٹیم کے ساتھ پاکستان حاصل کر بھی لیا گیا تو یہ ٹیم اس ملک کو اسلامی خطوط پر استوار کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے گی، اس لیے ان کا ماننا تھا کہ پہلے مسلمانانِ ہند کی ذہنی اور روحانی تربیت کی جانی چاہیے، اور پھر ایک تربیت یافتہ ٹیم اسلامی ریاست کے قیام کے نصب العین کو آگے لے کر چلے، اس مقصد کے لیے انہوں نے جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی اور کسی بھی موقع پر قیام پاکستان کی مخالفت نہیں کی اور نہ ہی وہ ریاست کے وجود کے خلاف تھے، جیسا کہ فواد چودھری نے باور کرانے کی کوشش کی۔
اس بیان میں جہاں فواد چودھری ایک طرف مولانا آزاد اور مولانا مودودی کی علمی کاوشوں اور اہمیت کا تذکرہ کرتے ہیں، وہیں اپنی کم علمی کے باعث مولانا مودودی کی شہرہ آفاق تفسیرِ قرآن، موسوم بہ تفہیم القرآن کو، ابوالکلام آزاد کی تفسیر قرآن سے خلط ملط کردیتے ہیں، ان کے بقول مولانا آزاد کی تفسیر کو دنیا بھر میں قبول عام حاصل ہوا، حالانکہ فی الواقع یہ تفہیم القرآن کا خاصہ ہے، فواد چودھری کو تو شاید یہ بھی علم نہ ہو کہ مولانا آزاد کی تفسیر کا نام کیا ہے، کتنی جلدوں پر مشتمل ہے اور کیا وہ اسے پایہ تکمیل تک پہنچا بھی سکے یا ان کی یہ علمی کاوش ناتمام رہ گئی تھی۔
اسی طرح ہماری نئی نسل کے لیے یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ اسلام کوئی پاپائیت کا نظام نہیں، جیسا کہ یورپ میں دین اور دنیا کی تفریق کے بعد ویٹی کن میں مروج ہے، بلکہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، جو زندگی کے ہر گوشہ اور ہر پہلو پر محیط ہے، محمدؐ محض ایک مبلغ یا واعظ نہیں تھے، بلکہ ایک ریاست کے بانی اور حکمران بھی تھے، تاجر اور جرنیل بھی تھے۔ اور یہی وجہ ہے کہ ریاست مدینہ میں سربراہ مملکت ہی مسجد کا امام بھی تھا۔ اسی سنت پر خلافت راشدہ قائم رہی، اور چودہ سو سال سے امت کا اس پر اجماع ہے، کہ اسلام ایک مذہب یا رسوم اور پوجا پاٹ کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک سیاسی، سماجی اور معاشی نظام ہے، جسے مکمل طور پر نافذ کیے بغیر اس کے ثمرات اور فیوض و برکات سے مستفید نہیں ہوا جا سکتا، اس لیے جب فواد چودھری یہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے لیے ملک تو ضرور بنا رہے تھے، مگر اسلامی ریاست بنانا مقصود نہ تھا، تو دراصل وہ ایک گمراہ کن نظریہ کا پرچار کر رہے ہیں، جو نہ صرف یہ کہ قائد اعظم کے فرمودات و ارشادات کے برعکس ہے، بلکہ مولانا آزاد اور مولانا مودودی کی تصنیفات، امت کے صدیوں پر محیط علمی اور عملی اتفاق رائے، اور خود تعلیمات نبوی و قرآنی احکامات کے خلاف ہے، جو الحکم اللہ الملک اللہ اور اْدخلو فی السلم کافہ کا درس دیتے ہیں، یعنی ملک اور حکومت دونوں اللہ کے ہیں اور دین میں پسند نا پسند نہیں بلکہ مکمل نفاذ اور پورا پورا داخل ہونا ہی مطمحِ نظر ہے۔ اس لیے علامہ اقبال نے بھی کہا تھا کہ
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی