اے ابن آدم ماضی میں مسلمانوں کا ایک عروج تھا جب کوئی نیا شہر فتح ہوتا تو وہاں لوگوں کو امان دی جاتی تھی اُن کے بدلے خراج لیا جاتا تھا، پھر مسلمانوں پر زوال آیا کیوں آیا یہ ایک طویل تاریخ ہے جس پر کسی اور وقت روشنی ڈال دوں گا۔ آج مسلمان انگریز آقائوں کو خراج ادا کررہے ہیں۔ بس اُس کا نام تبدیل ہوگیا ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک ترقی پزیر ممالک کو قرضے دینے کے بعد پھر اُن سے سود کے ساتھ وصولی کرتا ہے، یہ سود کسی خراج سے کم نہیں، قرضوں کے بعد ہم اُن کی ہدایت پر عمل کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔ وزیراعظم صاحب نے اپنے جلسوں میں اعلان کیا تھا کہ وہ کسی صورت قرضے نہیں لیں گے مگر عوام کے لیے بھی ایک بُری خبر کے آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے کھانے پینے اشیا، ادویات، صنعتی و زرعی سامان سمیت 144 اشیا پر 17 فی صد سیلز ٹیکس لگا جارہا ہے۔ 360 ارب کے نئے ٹیکس کی منظوری کے لیے قومی اسمبلی کے اجلاس میں فیصلہ ہوگا۔ مجھے یقین ہے کہ ہر بل منظور ہوجائے گا۔ حکومت کا یہ کہنا ہے کہ اس ٹیکس سے غریب آدمی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ بات یہ ہے کہ غریب آدمی کے پاس اب بچا ہی کیا ہے اس منی بجٹ کے بعد غریب یہ گانا گا رہا ہوگا۔ ’’جو بچا تھا وہ لوٹانے کے لیے آئے ہیں‘‘ پھر ایک آواز اُس کے کانوں میں آئے گی ’’گھبرانا نہیں‘‘ تو غریب مسکرا کے بولے گا ’’خان صاحب یہ تو ہماری بہت ہمت ہے کہ ہم 3 سال سے مہنگائی کو رو رپے ہیں مگر اب تک نہیں گھبرائے‘‘۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس بجٹ سے عام آدمی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا، مگر منی بجٹ کا مطالعہ کرنے پر پتا چلا کہ فرق تو صرف عام آدمی ہی پر پڑنے جارہا ہے۔ موبائل کالز پر ٹیکس 10 فی صد سے بڑھا کر 15 فی صد، شیر خوار بچے کے دودھ پر بھی ٹیکس کیا یہ ہے ریاست مدینہ کا خواب۔ ابن آدم کہتا ہے کہ شیرخوار بچے کے دودھ کا ڈبہ 100 روپے سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے مگر ہمارے ملک میں شیر خوار بچے کا دودھ 1000 روپے ہفتہ پڑتا ہے کچھ دودھ کے ریٹ تو اس سے بھی زیادہ ہیں۔
ادویات کے خام مال پر 17 فی صد ٹیکس تو کیا اس ٹیکس کے لگنے سے کیا ادویات کی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہوگا۔ حکمرانوں کا تو بس ایک ہی کام ہے عوام کو دھوکا دینا۔ دہی، پنیر، مکھن، دیسی گھی، دودھ اور کریم پر 10 فی صد ٹیکس تھا جس کو بڑھا کر 17 فی صد کردیا گیا ہے۔ وزیر خزانہ فرماتے ہیں عام آدمی پر اگر 2 ارب کے ٹیکس لگادیے گئے تو کوئی طوفان نہیں آجائے گا۔ خدا کی قسم وزیر خزانہ تم نے تو حد ہی کردی، تمہارے پاس تو نوٹوں کی کمی نہیں ہے، اپنی تنخواہ اور ایک غریب مزدور، کلرک، نائب قاصد کی تنخواہ دیکھ لو تمہاری حکومت نے تو غریب کا گلا ہی دبا دیا ہے۔ کیا کیا یاد کروانا پڑے گا کہ تمہارے وزیراعظم نے اقتدار میں آنے سے پہلے عوام سے کتنے وعدے کیے تھے۔ یاد تو کرو بجلی کے بلوں کو آگ لگا کر کیا کہا تھا جب ہم اقتدار میں آئیں گے تو سب سے پہلے بجلی کے ریٹ کم کریں گے، مگر جتنا بڑا کرپشن ملک میں بجلی کے نام پر ہورہا ہے وہ نہ تو وزیراعظم، نہ اُن کی کابینہ، نہ عدلیہ کو نظر آرہا ہے۔ FPA نام کا جو ٹیکس بجلی کے بلوں پر لگا ہے وہ تاریخ کی سب سے بڑی کرپشن ہے۔ اخباری خبر کے مطابق چیئرمین نیپرا بل دیکھ کر حیران، فیول چارجز ایڈجسٹمنٹ کی مد میں پاور ٹیرف میں 3.58 سے 4.33 روپے یونٹ تک اضافے کا امکان ہے۔ چیئرمین نیپرا نے فرمایا کہ اگر ہم نے 4.33 روپے یونٹ اضافے کی اجازت دی تو عوام پر 41 ارب کا بوجھ پڑے گا۔ تاریخ شاہد ہے جب سے یہ نیپرا وجود میں آئی ہے عوام بیچارے بوجھ پر بوجھ برداشت کررہے ہیں۔ واحد جماعت اسلامی ملک کی جماعت ہے جس نے اس ظلم کے خلاف عدالت میں کیس کر رکھا ہے مگر عدالت کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ عوام کے مفادات کے لیے کوئی بڑا کارنامہ سرانجام دے۔ عدلیہ نسلہ ٹاور کو گرا سکتی ہے تو ملک میں مقامی طور پر سستی بجلی بنانے کا حکم بھی دے سکتی ہے۔
3 برس میں مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے اور محترم وزیراعظم صاحب فرماتے ہیں گھبرانا نہیں۔ وزیراعظم صاحب آپ کے وزیر اور مشیر کسی کام کے نہیں ہیں، اُن کا بس ایک ہی کام ہے اپوزیشن جو آپ پر الزامات لگاتی ہے بس وہ اُس کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں، جن محکموں کے وہ وزیر ہیں اُن کو یہ تک نہیں معلوم کہ وہ جس محکمے کے وزیر ہیں اُس کا کام کیا ہے، اُن محکموں میں کتنا اسٹاف کام کررہا ہے، کام ہو بھی رہا ہے یا نہیں۔ بس یہ سب وزیر اور مشیر قسمت کے دھنی ہیں، بس سب کے سب مال کمانے میں لگے ہیں۔ مجھے تو آج کی تاریخ تک وزیراعظم کا وژن ہی سمجھ میں نہیں آیا 4 بیان آن ریکارڈ موجود ہیں۔ (1) چین جیسا نظام لانا چاہتا ہوں۔ (2) نئے پاکستان کو ایران جیسے انقلاب کی تلاش ہے۔ (3) مدینہ جیسی فلاحی ریاست بنائیں گے اور اب فرماتے ہیں امریکی طرز کے حکومتی نظام کی ضرورت ہے۔ اجلاس میں بغیر تیاری آئے تو ٹھیک نہیں ہوگا، کارکردگی دکھانا ہوگی، یہ سب باتیں ہی باتیں ہیں ماضی میں جب بھی کوئی وزیراعظم ہدایت نامہ جاری کرتا تھا تو ادارے اس کے Mintus of Meeting بنا کر ہر ادارے کو ارسال کرتے پھر اس کی بنیاد پر اُن کی کارکردگی دیکھی جاتی تھی۔ آج ہمارے وزیراعظم صاحب ہر ہفتہ 10 ہدایت نامے جاری کرتے ہیں۔ ابھی ایک ہدایت نامہ کہ Mintus of Meeting نہیں بن پاتے کہ دوسرا آجاتا ہے، ملک کی بیوروکریسی بھی تنگ آچکی ہے مگر اُن کو بھی تو آخر نوکری کرنی ہے۔ دوسری جانب قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس نے ملک کی پہلی نیشنل سیکورٹی پالیسی کی منظوری بھی جو ایک اچھا اقدام ہے اس اجلاس میں مسلح افواج کے سربراہان نے بھی شرکت کی جس سے وزیرعظم کی ایک بات تو سچ ثابت ہوتی ہے کہ حکومت اور فوج ایک پیج پر ہیں۔ اگر نہ ہوتے تو اُن کے لیے اپنی مدت پوری کرنا ناممکن تھا۔ خیر ہم لکھاری ہیں ہمارا کوئی ذاتی مفاد نہیں ہوتا، ہمارا قلم عوام کا قلم ہوتا ہے، ہم اُن کے مسائل کو فوکس کرتے ہوئے کالم تحریر کرتے ہیں، بس آئینہ ضرور دکھاتے ہیں اُن کو بُرا تو ضرور لگتا ہوگا مگر سچ تو ہوتا ہی کڑوا ہے۔
2021ء ختم اب 2022ء شروع، اب اعداد و شمار پر ضرور نظر ڈالیں، سال کے شروع میں ڈالر 153 اور آج 181، مہنگائی کی شرح سال کے آغاز میں 6 فی صد تھی آج 13 فی صد ہے، تعلیمی معیار پہلے سے زیادہ گرا ہوا ہے، اندرون سندھ میں تو نقل کے بغیر امتحان کا تصور تک نہیں ہے، کرپشن میں ہم مزید 2 درجے نیچے آگئے ہیں۔ نظام انصاف میں ہم ایک درجے مزید نیچے چلے گئے ہیں پچھلے سال 144 ویں نمبر پر تھا آج 145 واں نمبر پر کھڑے ہیں۔ پھر بھی آپ یہ کہتے ہیں کہ گھبرانا نہیں، آپ کی حکومت جو الیکشن سے پہلے کہتی تھی ہم آئی ایم ایف کے آگے بھیک نہیں مانگیں گے اور آپ کی حکومت نے تو حیران ہی کردیا ایک ایسا معاہدہ کرلیا جس سے حکومت پاکستان کا اپنے ہی اسٹیٹ بینک پر کنٹرول ختم ہوگیا ہے۔ آپ کہتے ہیں گھبرانا نہیں، آپ ہر لمحہ آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن لینے کے لیے تیار ہیں۔ اپنے ملک کی کرنسی پر کنٹرول ختم کردیا، آپ نے تو لکھ کر دے دیا کہ ہم روپے کی قدر میں کمی اور زیادہ ہونے پر مداخلت نہیں کریں گے، ہمارے روپے کی قدر روز گرتی جارہی ہے اور حکومت خاموش تماشائی بن کر دیکھ رہی ہے۔ آپ کے پاس وہ معاشی ٹیم ہی نہیں ہے جس کے خواب آپ نے عوام کو دکھائے۔
تقریباً تمام اہم اداروں کے سربراہوں کو ساڑھے 3 سال میں 5 سے 6 مرتبہ تبدیل کیا گیا مگر کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔ آج بھی ملک کو مہنگائی اور روپے کی بے قدری نے گھیرا ہوا ہے مگر آپ نے ہمت نہیں ہاری ایک جملہ یاد کرلیا ہے بس گھبرانا نہیں۔ آج ملک کا حال دیکھ کر تو عالم برزخ میں قائداعظمؒ، ڈاکٹر محمد اقبالؒ، لیاقت علی خان، محترمہ فاطمہ جناح مادر ملت اور دیگر بانیان پاکستان کی روحیں تک گھبرا رہی ہیں مگر آپ ہیں کہ بس ہر مرتبہ یہی کہہ دیتے ہیں ’’گھبرانا نہیں‘‘۔