یوم الحاق کشمیر: ایک وعدہ جو وفا نہ ہوا

909

آج دنیا بھر میں کشمیری مسلمان، اہل پاکستان اور ان سے ہمدردی رکھنے والے بنیادی انسانی حقوق کے علم بردار اس قرارداد کی یاد منا رہے ہیں جو انیس سو انچاس کو سلامتی کونسل نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے منظور کی تھی اس قرار داد میں عالمی برادری نے کشمیریوں سے وعدہ کیا تھا کہ ان کے مستقبل کا فیصلہ اقوام متحدہ کے زیر نگرانی ایک غیر جانبدارانہ اور آزادانہ استصواب کے ذریعے کیا جائے گا اور کشمیری استصواب میں خود فیصلہ کریں گے کہ وہ بھارت اور پاکستان میں سے کس کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں۔ وائے بدقسمتی ستر سال گزر گئے کشمیریوں سے کیا گیا یہ وعدہ پورا نہیں کیا جاسکا۔ تین جون سنتالیس کو وائسرائے ہند لارڈ مائونٹ بیٹن نے بھارت اور پاکستان کے قیام کا اعلان کیا تو اس میں واضح کیا گیا تھا کہ جو ساڑھے تین سو سے زائد خود مختار ریاستیں موجود ہیں وہ اپنی آبادی کی رائے کو مد نظر رکھتے ہوئے دو آزاد ممالک میں سے کسی ایک کے ساتھ شریک ہو سکیں گی۔ وائسرائے کے اس اعلان تقسیم ہند کو مسلم لیگ،کانگریس اور تمام اہم سیاسی جماعتوں نے نشری تقریروں میں تسلیم کیا۔ وائسرائے کے اعلان میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ الحاق کا فیصلہ آبادی کی رائے یا بھارت یا پاکستان سے ملحق ہونے کی شرط پر کیا جائے گا۔ اس اعلان کی روشنی میں کشمیر کو پاکستان کا حصہ بننا چاہیے تھا اس لیے کہ اس کی آبادی کی اکثریت مسلمان تھی اور وہ پاکستان کی سرحدوں سے ملحق بھی تھا مگر کشمیر کے سلسلے میں وائسرائے اور کانگریس نے پہلے تو یہ ڈنڈی ماری کہ پنجاب کے دو مسلم اکثریتی اضلاع بھارت کو دے دیے، اس سازش کو ریڈ کلف بائونڈری کمیشن کے ذریعے پروان چڑھایا گیا۔ مشرقی پنجاب کا ضلع گورداسپور مسلم اکثریتی علاقہ تھا اور اسے پاکستان میں شامل ہونا چاہیے تھا لیکن بھارت کو کشمیر تک رسائی دینے کے لیے یہ ضلع خفیہ طور پر بھارت کو دے دیا گیا۔ اس زمینی راستے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت نے ایک پوری گورکھا رجمنٹ کو سویلین کپڑوں میں سری نگر پہنچا دیا، جس نے کشمیری مسلمانوں کا خون بہانہ شروع کر دیا اور ان کے مکانوں اور دکانوں پر قبضے کرلیے، کشمیری مسلمانوں نے اس کے خلاف مزاحمتی جدو جہد کا آغاز کیا جس کو کچلنے کے لیے بھارت نے ہوائی جہازوں سے جموں اور سری نگر میں فوج اتار دی اور اس دوران کشمیر کے غیر مسلم مہاراجا کی طرف سے ایک جعلی اعلان شائع کیا گیا کہ وہ کشمیر کو بھارت میں شامل کرنا چاہتا ہے۔
ممتاز برطانوی محقق اور مورخ چارلس لیمب نے اپنی کتاب ایک عظیم دھوکا میں لکھا ہے کہ الحاق کے اس اعلان کی کوئی دستاویز حکومت بھارت کے پاس موجود نہیں اسے کانگریس سرکار نے خود جعلی طور پر ایک کاغذ پر ٹائپ کیا اور اس پر مہاراجا کے دستخط بھی نہیں تھے یہ جعلی دستاویز انیس سو چون کے بعد سے بھارت کے سرکاری کاغذوں سے غائب ہوگئی۔ کشمیر میں بھارت اور پاکستان کے درمیان فوجی تصادم ہوا جس میں بھارت کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تو بھارتی وزیر اعظم پنڈت نہرو ہانپتے کانپتے سلامتی کونسل جا پہنچے اور سیز فائر کی بھیک مانگنے لگے، سلامتی کونسل نے دونوں ممالک کا نقطہ نظر معلوم کرنے کے لیے کئی ماہ تک بحث مباحثہ سنا اور بالآخر بھارت کی درخواست پر جنگ بندی کا حکم دیا یہ پانچ جنوری انیس سو انچاس کا دن تھا جب سیز فائر کی قرار داد منظور کی گئی اور اس قراردار میں واضح طور پر درج کیا گیا کہ کشمیر کو حق خود ارادیت دیا جائے گا اور وہ اپنی قسمت کا فیصلہ خود کریں گے۔ اس قرار دار کی توثیق بعد میں منظور کی جانے والی کئی قراردادوں کے ذریعے کی گئی۔ بھارت نے ان قراردادوں کو تسلیم کیا لیکن ان پر عمل درآمد نہیں ہونے دیا گیا اور الٹا کشمیر پر اپنا قبضہ مستحکم کرنے کے لیے بھارت نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کشمیر میں اپنی فوج میں اضافہ کرنا شروع کردیا۔ آج کشمیر میں بھارتی فوجیوں کی تعداد نو لاکھ ہے اور کشمیری مسلمانو ں کی تعداد نوے لاکھ ہے۔ اس طرح ہر دس کشمیریوں پر ایک بھارتی فوجی سنگین تانے کھڑا ہے، پچھلے مہینوں میں چین کے ساتھ لداخ میں تصادم کی آڑ میں بھارت کشمیر میں دو لاکھ مزید فوج داخل کر چکا ہے اس طرح دنیا میں کشمیر واحد ایسا خطہ ہے جہاں سب سے زیادہ غاصب فوج موجود ہے۔
کشمیری مسلمان نہتے ہیں وہ صرف احتجاج کے لیے جلسے جلوس کرسکتے ہیں مگر بھارتی فوج ان پر جبر و ستم کا ہر ہتھکنڈہ آزما رہی ہے۔ آنسو گیس سے لے کر مشین گنوں کی تڑ تراہٹ تک اور بھاری توپ خانے کی گولہ باری تک بھارت اپنی طاقت استعمال کر رہا ہے۔ پیلٹ گنوں کے چھروں سے وہ سیکڑوں کشمیریوں کی بینائی چھین چکا ہے۔ ڈیڑھ لاکھ سے زائد کشمیری نوجوانوں کو شہید کرچکا ہے، پچاس ہزار کشمیری نو جوان لاپتا ہیں، ہزاروں عورتوں کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ کشمیریوں کے جذبہ آزادی کو روکنے کے لیے ان کی لیڈر شپ کو طویل عرصے کے لیے جیلوں میں رکھا گیا ہے۔ بھارت نے کشمیریوں کے تمام بنیادی حقوق سلب کر رکھے ہیں۔ سلامتی کونسل کی قراردادوں اور اپنے ہی آئین کی نفی کرتے ہوئے بھارت نے پچھلے سال پانچ اگست کو کشمیر کو اپنے اندر ضم کرلیا اور اس کی خصوصی حیثیت ختم کردی، بھارتی آئین کا آرٹیکل تین سو ستر حذف کر دیا گیا اسی طرح پینتیس اے کو بھی بھارتی آئین سے نکال دیا گیا جس کے بعد بھارت کا ہر باشندہ کشمیریوں کی جائیدادیں ہڑپ کرنے پر تلا بیٹھا ہے۔ کشمیر کی رگ رگ سے لہو ٹپک رہا ہے، کشمیریوں کے انسانی حقوق پامال ہو چکے ہیں، کشمیر دنیا کا سب سے بڑا جیل خانہ ہے اور ستم ظریفی یہ ہے کہ اسی کشمیر کے بارے میں سلامتی کونسل کی قراردادوں کا منہ چڑانے والا بھارت آج سلامتی کونسل کا رکن بنا بیٹھا ہے، وہ کشمیر کے پر امن حل کی راہ میں رکاوٹ ہے جس کی وجہ سے اندیشہ یہ ہے کہ خطے میںآئندہ کوئی تصادم ہوا تو وہ ایٹمی تباہی کی قیامت بن جائے گا۔ وزیر اعظم عمران خان جنرل اسمبلی میں اپیل کر چکے ہیں کہ عالمی ضمیر جاگے اور اس مسئلے کے پرامن حل کا راستہ تلاش کی جائے۔