صفحہ محنت، منزل بہ منزل، مسلسل اشاعت کا 32واں سال

357

روزنامہ جسارت کے صفحہ محنت کو مسلسل شائع ہوتے ہوئے 32 واں سال شروع ہوگیا۔ اللہ کا شکر ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کل کی ہی بات ہے جب صفحہ محنت شروع ہوا۔
جسارت کا صفحہ محنت جنوری 1991ء سے ہر ’’پیر‘‘ کو مسلسل شائع ہو رہا ہے جس میں آجر، اجیر، حکومتی نمائندوں اور متعلقہ فریقین کی خبریں بلا امتیاز شائع کی جاتی ہیں۔ شروع کے پانچ سالوں میں فیڈریشن کی سطح کے رہنمائوں اور ان سے ملحقہ یونین کی خبریں شائع ہوتی تھیں۔ جسارت لیبر فورم کے زیر اہتمام پروگرام میں اہم رہنما ہی شرکت کرتے تھے۔ جس پر پلانٹ لیول کی قیادت نے توجہ دلائی کہ بڑے لیڈر ہماری ہی وجہ سے بڑے ہیں اس لیے چھوٹوں کو بھی اہمیت دیا کریں۔ پھر پلانٹ لیول کے رہنمائوں کی خبریں ترجیح بنیادوں پر شائع ہونے لگیں۔ شروع ہی میں متحدہ لیبر فیڈریشن کے بانی نبی احمد (مرحوم) اور پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کے رہنما سلیم رضا (مرحوم ) نے جسارت لیبر فورم کے تعاون سے اپنے اپنے دفاتر میں مزدور مسائل پر پروگرام منعقد کیے۔ فروری 1995ء میں پاکستان ورکرز کنفیڈریشن کا تاسیسی اجلاس بختیار لیبر ہال لاہور میں منعقد ہوا۔ صفحہ محنت نے اس کی بھر پور کوریج کی۔ میں نے نومبر 1995ء میں ملک بھر کے صنعتی شہروں کا دورہ کرکے مزدور مسائل پر لیبر فورم منعقد کرکے مزدور رہنمائوں کے خیالات کو شائع کیا۔
عدالتوں کے تاریخی فیصلوں
کی اشاعت، گریجویٹی
سپریم کورٹ آف پاکستان نے 1994ء میں فیصلہ دیا کہ گریجویٹی گراس سیلری پر دی جائے۔ اس فیصلہ کو آل پاکستان ٹریڈ یونین آرگنائزیشن ’’ایٹپو‘‘ کے بانی ایس پی لودھی (مرحوم) نے صفحۂ محنت میں شائع کروایا اور 500 صفحہ محنت جس میں فیصلہ شائع ہوا خرید کر ملک بھر میں تقسیم کرے جس سے مزدور رہنمائوں کے علم میں اضافہ ہوا۔ فیصلہ کا ترجمہ ملک رفیق ایڈووکیٹ نے کیا تھا۔ نومبر 1997ء میں ایپٹو کا سالانہ جلسہ کراچی پریس کلب میں منعقد ہوا جس میں مختلف مزدور رہنمائوں نے خطاب کیا۔ النور شوگر ملز شاہ پور جہانیاں کے مزدور رہنما نے اپنی تقریر میں کہا کہ گریجوٹی کا فیصلہ جو صفحہ محنت میں شائع ہوا اس کو انہوں نے اپنی انتظامیہ کو دیا کہ گریجویٹی گراس سیلری پر دی جائے۔ انتظامیہ نے منع کردیا جس پر یونین نے احتجاج کیا اور جدوجہد کی جس کے نتیجہ میں انتظامیہ گریجویٹی گراس سیلری پر دینے کے لیے راضی ہوئی اور بقایاجات بھی ادا کیے۔
چھٹی کے بعد ٹرانسپورٹ کا انتظار
کرنا بھی ڈیوٹی میں شمار ہوتا ہے
حب انڈسٹریل ایریا میں واقع گیٹرون انڈسٹری میں شام کو چھٹی کے بعد مزدور بس کے انتظار میں کھڑے تھے۔ RCD ہائی وے پر گزرنے والی پرانسپورٹ مزدوروں سے ٹکرا گئی جس میں مزدور جاں بحق اور زخمی ہوئے۔ اس کے بعد گیٹرون کی انتظامیہ اور سوشل سیکورٹی کے درمیان تنازعہ کھڑا ہوگیا۔ سوشل سیکورٹی کا کہنا تھا کہ حادثہ کمپنی کے باہر چھٹی کے بعد ہوا ہے اس لیے وہ علاج معالجہ کی ذمہ دار نہیں۔ یہ تنازعہ نچلی عدالت سے بلوچستان ہائی کورٹ میں گیا اور ایس ایم یعقوب نے داد رسی کے لیے دلائل دیے۔ بلوچستان ہائی کورٹ نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ دیا کہ چھٹی کے بعد مزدور کا بس کے لیے انتظار کرنا بھی اوقات کار میں شمار ہوگا۔ اس فیصلہ کا ترجمہ بھی ملک رفیق ایڈووکیٹ نے کیا اور صفحہ محنت میں شائع ہوا۔
شاہین ائر پورٹ اور کراچی چیمبر
میں IRO کا اطلاق ہوتا ہے
شاہین ائر پورٹ سروسز کی انتظامیہ یونین کے وجود کو اس لیے تسلیم نہیں کرتی تھی کہ وہ آرمی کے تحت فلاحی ادارہ ہے۔ عدالتوں میں ایم اے کے عظمتی ایڈوکیٹ نے دلائل دیے جس پر عدالت نے فیصلہ دیا کہ شاہین ائر پورٹ سروسز پر IRO کا اطلاق ہوتا ہے۔ ٭ یہی صورت حال کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں تھی۔ انتظامیہ یونین کے وجود کو تسلیم نہیں کرتی تھی کہ چیمبر فلاحی ادارہ ہے۔ اس تنازعہ پر رفیع اللہ ایڈووکیٹ نے سندھ ہائی کورٹ میں دلائل دیے اور داد رسی طلب کی۔ 2010ء میں سندھ ہائی کورٹ کے جج شاہد انور باجوہ نے فیصلہ دیا کہ کراچی چیمبر ایک انڈسٹری ہے اور یہاں صنعتی تعلقات کے قانون کا نفاذ ہوتا ہے۔ اس فیصلہ کے خلاف انتظامیہ سپریم کورٹ میں گئی جہاں ہائی کورٹ کا فیصلہ بحال رہا۔ انتظامیہ پھر Review میں گئی جس کو سپریم کورٹ نے مسترد کردیا۔
سپریم کورٹ کا کنٹریکٹ لیبر پر تاریخی فیصلہ
فوجی فرٹیلائزر کمپنی ڈھرکی نے اپنے کام کے لیے مختلف ٹھیکیدار رکھے ہوئے ہیں۔ انتظامیہ یونین کے وجود کو تسلیم کرنے کے لیے اس لیے تیار نہیں تھی کہ ورکر ٹھیکیدار کے ملازم ہیں۔ یونین کے رہنما عبد الحق نے وطن دوست مزدور فیڈریشن کے تعاون سے طویل عدالتی جدوجہد کی۔ تنازعہ سپریم کورٹ تک گیا۔ مئی 2013ء میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اور دیگر دو ججوں نے اپنے طویل فیصلہ میں قرار دیا کہ کنٹریکٹ لیبر کو بھی وہی مراعات اور سہولتیں ملیں گی جو مستقل مزدوروں کو ملتی ہیں۔ ٹھیکیدار کے ملازم بھی ادارہ ہی کے مفاد میں کام کرتے ہیں اس لیے وہ کمپنی کے ملازم ہیں۔ فیصلہ کا ترجمہ ملک رفیق ایڈووکیٹ نے کیا اور صفحہ محنت میں 8 جولائی 2013کو شائع ہوا۔
کچھ ادھر ادھر کی
صفحہ محنت کی اہمیت کو صنعتی تعلقات کے فریقین تسلیم کرتے ہیں۔ پلانٹ لیول کی خبریں شائع ہونے کی وجہ سے پلانٹ لیول کے مزدور رہنما ذوق و شوق سے صفحہ محنت کا مطالعہ کرکے معلومات میں اضافہ کرتے ہیں۔ سنوفی ایونٹس سی بی اے یونین کے نوٹس بورڈ میں پورے ہفتہ صفحہ محنت لگا رہتا ہے۔ مختلف ادارہ کے منیجرز صفحہ محنت اس لیے پڑھتے ہیں کہ مزدور تحریک میں کیا ہو رہا ہے۔ مختلف مواقع پر مزدور فیڈریشنوں نے جسارت کی مزدور خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے استقبالیے ترتیب دیے۔ مختلف اہم موضوعات پر جسارت لیبر فورم کے زیر اہتمام تقریبات منعقد ہوتی ہیں اور مزدور مسائل پر سروے کیے جاتے ہیں۔ صفحہ محنت سے کچھ لوگوں کو شکایتیں بھی رہتی ہیں۔ مثلا فلاں کو کیوں شائع کیا جارہا ہے اور فلاں کو کیوں شائع نہیں کیا۔ اگر فلاں مزدوروں کے کسی مسئلہ پر لکھ رہا ہے تو شکایت کرنے والا بھی اسی مسئلہ پر لکھ دے۔ شکایات کرنے والوں کو کتنا بھی اچھا شائع کردیں لیکن شکایت کرنے والے کبھی مطمئن نہیں ہوتے۔ نئی نئی شکایتیں کرنے لگتے ہیں۔ یہ نہیں ہوا وہ نہیں ہوا۔ ایسا کریں ویسا نہ کریں۔ ہدایات کا سفر جاری رہتا ہے۔
سوال جواب
محنت کشوں کو قانونی مشورے دینے کے لیے اشرف رضوی ایڈووکیٹ، ایم اے مجید ایڈووکیٹ، چودھری محمد اشرف خان ایڈووکیٹ نے مختلف مواقعوں پر سلسلہ شروع کیا۔ ایم اے کے عظمتی ایڈووکیٹ نے تقریبا دو سال قانونی مشورے دیے۔ قانونی مشاورت کا سلسلہ اب رک گیا ہے۔ اس سلسلہ میں ایک سچا لطیفہ یہ ہے کہ تقریباً 15 سال قبل چودھری محمد اشرف خان ایڈووکیٹ سے ملنے ان کے دفتر واقع حسرت موہانی روڈ پر گیا تو انہوں نے ایک واقعہ بتایا کہ کچھ لوگ مقدمہ کرنے کے حوالہ سے نواب شاہ سے میرے دفتر آئے۔ مشاورت کے بعد جب مزدور رہنما جانے لگے تو انہوں نے پوچھا کہ آپ کو معلوم ہے کہ ہم اس گرمی میں نواب شاہ سے کیوں آپ کے دفتر میں آئے ہیں۔ جس پر چودھری اشرف نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم۔ آپ بتائیں۔ جس پر ان لوگوں نے جواب دیا کہ ہم نواب شاہ میں جسارت کا صفحہ محنت پڑھتے ہیں جس میں آپ قانونی مشورے دیتے ہیں۔
صفحہ محنت کو لیگل نوٹس
25 سال کے عرصہ میں صفحہ محنت کو لیگل نوٹس تو متعدد ملے ہیں سب تو یاد نہیں۔ چند یاد ہیں ڈالڈا کمپنی میں یونین قائم ہوئی۔ کمپنی نے سب کو نکال دیا کہ ورکر کمپنی کے ملازم نہیں بلکہ ٹھیکیدار کے ملازم ہیں۔ صفحۂ محنت میں مزدوروں کی جدوجہد شائع ہوتی رہی ہے جس پر ڈالڈا کمپنی نے کسی ٹھیکیدار کے ذریعہ اپنا موقف لیگل نوٹس کی صورت میں بھیجا کہ اسے شائع کیا جائے ورنہ جرمانہ وغیرہ دو۔ ان کا موقف شائع کردیا۔ دو سال کے بعد لیبر کورٹ سے فیصلہ آیا کہ برطرف مزدور ڈالڈا کمپنی کے ہی ملازم ہیں۔ محمد ہمایوں ایڈووکیٹ سپریم کورٹ نے بھی ایک خبر شائع ہونے پر 1 لاکھ روپے ہرجانہ کا لیگل نوٹس دے دیا۔ اس کا جواب دینے پر موصوف نے خاموشی اختیار کرلی لیکن ہر جگہ ذکر کرتے رہے کہ قاضی سراج نے نوٹس کا جواب فلاں ایڈووکیٹ سے لکھوایا ہے۔ جو حقیقت نہ تھی۔ تیسرا نوٹس ہمارے دوست چودھری محمد اشرف ایڈووکیٹ نے شاید 5 سال قبل دے دیا کہ پیپلز ورکرز یونین پاکستان اسٹیل کے بارے میں جو خبر شائع ہوئی ہے اس کی پریس ریلیز فراہم کی جائے ورنہ 1 لاکھ روپے کا جرمانہ ادا کریں۔
میں نے موصوف کا لیگل نوٹس اور جواب دونوں شائع کردیے جس پر چودھری محمد اشرف ایڈووکیٹ اور شمشاد قریشی نے خاموشی اختیار کرلی۔
گرفتاری اور رہائی
سندھ الکلیز کی نجکاری کردی گئی تھی۔ کچھ عرصہ کے بعد کارخانہ بند ہوگیا۔ مزدوروں کو واجبات نہیں ملے۔ ملک رفیق ایڈووکیٹ نے مشورہ لیا۔ میں نے کہا کہ پریس کلب پر مظاہرہ کروائیں۔ 15 مارچ 2001 کو کراچی پریس پر سندھ الکلیز کے مزدوروں نے 3 بجے مظاہرہ کیا۔ آرٹلری تھانے کی پولیس نے دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر مجھے، ملک رفیق ایڈووکیٹ اور دیگر 10 مزدوروں کو پکڑ کر تھانے میں بند کردیا۔ ہماری رہائی کے لیے مختلف لوگوں نے تھانہ آکر رہائی کی کوشش کی جسارت کے مدیر اور کرائم رپورٹ بھی آئے لیکن SHO نے ایک نہ سنی بلکہ جماعت اسلامی کو برا کہتا رہا۔ رات کو 11 بجے اس وقت کے امیر جماعت اسلامی کراچی نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ تھانہ آکر SHO سے ہمارے سامنے ملے تو وہی ایس ایچ او جو جماعت اسلامی کو براکہہ رہا تھا اس نے جماعت اسلامی کی تعریف کرنا شروع کردی اور شخصی ضمانت پر 12 بجے رات کو ہم سب رہا ہوگئے۔ دوسرے دن ہماری گرفتاری کی خبروں کو تمام قومی روزناموں نے شائع کیا۔ بہرحال صفحہ محنت کا مسلسل شائع ہونے میں روزنامہ جسارت کی انتظامیہ کا اہم کردار ہے کہ وہ بغیر کسی مالی فائدہ کے محنت کشوں کے لیے ہر ’’پیر‘‘ کو ایک مکمل صفحہ شائع کرتی ہے۔ صفحہ محنت شائع ہونے سے جسارت کو مالی فائدہ تو نہیں پہنچتا لیکن جسارت کی افادیت اور نیک نامی (Good will) میں اضافہ ضرور ہوتا ہے کہ برصغیر میں ایک اخبار تو ایسا ہے جو مزدوروں کی اہمیت کو سمجھتا ہے۔میں 31 سال کا ہوگیا
اور کیا سنائوں باتیں تو بہت ہیں
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آنے لگے اور کارواں بنتا گیا
میری اصل عمر خواہ کچھ ہو لیکن میں اپنے آپ کو31 برس کا جوان ہی محسوس کرتا ہوں۔ جس طرح 25 سال کا جوان کام کرتا ہے اسی طرح جذبوں اور حوصلوں سے نتائج کی پرواہ نہ کرتے ہوئے بلا خوف خطر کام کیے جارہا ہوں۔
یار زندہ صحبت باقی
آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پاکر دبالیے گئے ہیں۔
(القرآن سورہ نساء آیت نمبر 75)