گزشتہ دنوں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری نے اپنے ایک خطاب میں قائد اعظم محمد علی جناح، قیام پاکستان، اسلام اور سیکولرازم کے حوالے سے کچھ موشگافیاں کی ہیں، وہ دراصل ایک پرانا اور پھٹا ہوا ڈھول بجا رہے تھے، جسے پاکستان میں کئی دہائیوں سے بائیں بازو کے سرخیل اور ممتاز دانشور مبارک علی، مبشر حسن اور پرویز ہود بھوئے وغیرہم بجاتے بجاتے تھک گئے ہیں، پرویز ہود بھوئے نے تو اس رائے سے باقاعدہ رجوع بھی کرلیا ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح ایک لبرل سیکولر پاکستان بنانا چاہتے تھے، پرویز ہودبھوئے نے ایک مجمعے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قائد اعظم کی ذاتی زندگی خواہ کسی بھی نوعیت کی ہو، ان 42 سالہ سیاسی زندگی میں کوئی ایک بھی تقریر یا تحریر ایسی نہیں ملتی، جس میں انہوں نے لبرل یا سیکولر کا لفظ بھی استعمال کیا ہو، کجا یہ کہ وہ پاکستان کو سیکولر یا لبرل ریاست بنانا چاہتے ہوں، لہٰذا یہ دلیل کہ ان کی ذاتی بود و باش کس طرح کی تھی، غیر متعلق ہے۔ فواد چودھری کی اس بے وقت کی راگنی کا جائزہ لینے سے پہلے آئیے فواد چودھری کی سیاسی زندگی کا ایک سرسری جائزہ لیتے ہیں۔
فواد چودھری کی ذات اور ان کی سیاسی زندگی تضادات و تنازعات کا مجموعہ ہے، پاکستان تحریک انصاف کے بانی رکن و جنرل سیکرٹری، 2013 کے عام انتخابات میں لاہور کے ایک حلقے سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے امیدوار، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور معروف قانون دان حامد خان ایڈووکیٹ نے 2015 میں لاہور ہائی کورٹ کی تاریخ پر ایک کتاب لکھی جس میں انہوں نے 2002 سے 2007 تک لاہور ہائی کورٹ کے جج رہنے والے چیف جسٹس افتخار حسین چودھری کا ذکر کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ ان کے دور میں ہائی کورٹ میں بدعنوانی عروج پر تھی اور کئی غیر منصفانہ فیصلے ہوئے، انہوں نے نام لیے بغیر لکھا کی چیف جسٹس افتخار حسین چودھری کے ایک بھتیجے ان کے لیے دلالی کا کام کرتے تھے، اور زیر سماعت مقدمات میں لوگوں سے پیسے لے کر فیصلوں پر اثر انداز ہوتے تھے۔ بعد ازاں ایک ٹیلی وائزڈ پریس کانفرنس میں ایک صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے حامد خان نے تصدیق کی کہ ان کی مراد فواد حسین چودھری تھے۔
فواد چودھری نے سیاست میں قدم رکھا تو ان کے بارے میں زبان زد عام تھا کہ وہ ٹی وی اینکرز اور پرڈیوسرز کو ٹالک شوز میں شریک کروانے کے لیے تحفے تحائف بطور رشوت دیتے ہیں، بعد ازاں پرویز مشرف کے تنخواہ دار ترجمان بنے، جب پرویز مشرف کا اقتدار زوال پزیر ہوا تو انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی، اور زرداری صاحب کے قصیدے پڑھنے لگے۔ 2011 پی ٹی آئی کے مینار پاکستان لاہور جلسے سے پاکستان میں سیاسی انجینئرنگ کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا، جو 2014 کے اسلام آباد دھرنے میں اپنے عروج کو پہنچا اور یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے نوازشریف سے منہ موڑ لیا ہے، اور اپنا دست شفقت عمران خان کے سر پر رکھ لیا ہے، تو 2016 میں فواد چودھری نے پیپلز پارٹی سے چھلانگ لگا کر پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرلی۔ اس طرح وہ بجا طور پر ایک سیاسی لوٹے کہلانے کے مستحق ہیں، جن کا کوئی نظریہ ہے نہ وفاداری، بلکہ جہاں مفاد وہاں فواد۔
2018 میں تحریک انصاف کے حکومت میں آنے کے بعد وہ وزیر اطلاعات و نشریات بنے تو میڈیا کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، شکایات بہت بڑھ گئیں تو انہیں اطلاعات سے ہٹا کر سائنس و ٹیکنالوجی کا وزیر مقرر کردیا گیا، میرٹ کا ڈھول پیٹنے والے عمران خان اور پی ٹی آئی نے آج تک یہ نہیں بتایا کہ فواد چودھری کا سائنس و ٹیکنالوجی سے کیا تعلق ہے، اس دور میں انہوں نے بلاوجہ پاکستان رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین اور ممتاز عالم دین مفتی منیب الرحمن سے سینگ اڑا لیے، رویت ہلال جیسے متفقہ مسئلہ کو متنازع بنا دیا، پہلے سے موجود اور مستعمل قمری کیلنڈر جس پر ایک زمانے سے دائودی بوہرہ جماعت عمل پیرا ہے، کو نئے لفافے میں ملفوف کر کے یہ باور کرانے کی کوشش کی گویا یہ ان کی ایجاد ہو۔ لاہور کی تاریخی جامعہ مسجد وزیر خان کے باہر میراثیوں کے ہمراہ پہنچ گئے اور دھمال ڈالا، اس کے علاوہ بھی وہ وقتاً فوقتاً، موقع بے موقع اسلام، اسلامی شعائر، علماء اور مذہبی جماعتوں کا مذاق اڑاتے رہتے ہیں، ان کی انہی حرکات کی وجہ سے ان کے ایک معاصر، پی ٹی آئی کے اہم رہنما، رکن صوبائی اسمبلی پنجاب اور سابق وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے ایک نجی چینل پر براہ راست نشریات میں ان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ فواد چودھری کو ایک کیڑا ہے جو اسے چین سے نہیں بیٹھنے دیتا اور وہ وقتاً فوقتاً ایسے بیانات دیتا ہے جو عمران خان اور پارٹی کے لیے شرمندگی کا باعث بنتے ہیں۔
اس لیے تحریک آزادی پاکستان، بانیانِ پاکستان، مذہبی زعماء اور اسلام جیسے موضوعات پر ایسے بے کردار اور کم ظرف انسان کی یاوہ گوئی قطعاً اس قابل نہیں کہ اس کا کوئی علمی اور مدلل جواب دیا جائے، تاہم ان کی گفتگو ہماری نوجوان نسل میں ذہنی اور فکری انتشار کا باعث بن سکتی ہے، اس لیے ریکارڈ کی درستی اور نوجوان نسل کی رہنمائی کے ضروری ہے کہ اس گفتگو کا مختصر تنقیدی جائزہ لیا جائے۔
اب آتے ہیں فواد چودھری کی تازہ ترین مْوشَگافی کی طرف، اسلام آباد میں قائد اعظم کی حیات پر ایک تصویری نمائش کا افتتاح کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان انتہا پسندی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے، پاکستان کے مشرق میں بھارت اور مغرب میں افغانستان میں مذہبی انتہا پسند حکومتیں قائم ہیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے وزیراعظم اور پارٹی سربراہ عمران خان افغانستان میں طالبان کی فتح کو آزادی سے تشبیہ دیتے ہیں، اور دنیا بھر سے طالبان حکومت کی مدد کی اپیلیں کرتے پھرتے ہیں، حال ہی میں اسلام آباد پاکستان میں مسلمان ممالک کی تنظیم او آئی سی کے وزراء خارجہ کا 17 واں غیر معمولی اجلاس منعقد ہوا، جس میں افغانستان میں طالبان حکومت کی مدد کے لیے فنڈ قائم کرنے کی پاکستانی تحریک پر اتفاق رائے ہوا۔ اسی گفتگو میں آگے چل کر فواد چودھری نے تحریک پاکستان، قائد اعظم محمد علی جناح، اسلام اور سیکولرازم کے حوالے سے بھی گفتگو کی۔ انہوں نے قائد اعظم کی ذاتی زندگی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان کا ذاتی طرز زندگی بھی لبرل تھا اور پاکستان کو بھی لبرل سیکولر بنانا چاہتے تھے، اگر پاکستان کو اسلامی ریاست بنانا مقصود ہوتا تو جدوجہد آزادی کی رہنمائی ابوالکلام آزاد یا مولانا مودودی کر رہے ہوتے، یہ بیان دیتے ہوئے فواد چودھری نے اپنے ٹریڈ مارک تجاہل عارفانہ سے کام لیا اور تاریخی حقائق سے چشم پوشی کرتے ہوئے خلاف واقعہ باتیں کہیں، یہاں ہم اس کا نکتہ وار تجزیہ کریں گے۔
(جاری ہے)