’’سانحہ سیالکوٹ‘‘ یقینا افسوسناک ہے تاہم شفاف تحقیقات سے قبل مذمتی بیانات اور گرفتار ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے سمیت پھانسیاں دینے کی بات اور مطالبہ کرنا انصاف کے طے شدہ اصولوں اور تقاضوں کے منافی ہے۔ جب کہ خاص طور پر اس واقعے میں توہین رسالت کا الزام بھی زیربحث ہو تو اس طرح کی صورت حال میں انتہائی محتاط رہنے کی ضرورت تھی۔ شفاف تحقیقات سے قبل وزیراعظم عمران خان کے بیانات تو مغربی ایجنڈے کے مطابق آنا ممکن تھے لیکن دینی قیادت اور علما کرام کو ذمے دارانہ اور سنجیدہ رویہ اختیار کرتے ہوئے مکمل تحقیقات کا انتظار کرنا چاہیے تھا۔ شفاف اور مکمل تحقیقات سے قبل شدید ردعمل اور مذمتی بیانات ناقابل فہم اور شرمناک ہیں۔ مذمتی بیانات کے انبار اور رفتار کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ عالمی سطح پر ہم خود ہی پاکستان کی بدنامی کا سبب بن رہے ہیں جس کے بعد خدشہ ہے کہ آگے چل کر دینی قیادت اور علما کرام کے مذمتی بیانات کو جواز بناتے ہوئے حکومت توہین رسالت کے قانون اور سزا میں تبدیلیاں اور ترامیم کرنے کی کوشش کرے گی۔
قوم دینی قیادت اور علما کرام سے یہ پوچھنا چاہتی ہے کہ جس طرح سے ان کا ’’سانحہ سیالکوٹ‘‘ پر فوری ردعمل آیا کہ جس میں سری لنکا کے ایک شہری پریانتھا کمارا کو بعض خبروں کے مطابق توہین رسالت کے جرم میں ایک ہجوم کے اندر قتل کردیا گیا۔ اس طرح کا ردعمل اور اتحاد مظلوم اور بے گناہ ڈاکٹر عافیہ کو امریکی قید سے آزاد کرانے، عاشق رسول ممتاز قادری شہید کو پھانسی سے بچانے اور گستاخ رسول آسیہ مسیح کی سزائے موت کو معاف کرکے اُسے بیرون ملک فرار کرانے کے حکومتی اور عدالت عظمیٰ کے فیصلوں کے خلاف سامنے کیوں نہیں آیا؟۔
’’سانحہ سیالکوٹ‘‘ کی مکمل اور شفاف تحقیقات کے لیے ضروری ہے کہ مختلف ایجنسیوں کے دیانت دار اور جرأت مند آفیسر پر مشتمل ایک ’’جے آئی ٹی‘‘ تشکیل دی جائے اور اس ’’جے آئی ٹی‘‘ کی رپورٹ کو شائع کرنے کی اجازت بھی ہونی چاہیے تا کہ عدالت میں مقدمہ چلنے کے ساتھ ساتھ ہر عام و خاص پاکستانی شہری کو بھی یہ بات معلوم ہوسکے کہ سانحہ سیالکوٹ میں کون کہاں غلط اور کتنا بے قصور تھا؟۔