اگلا وزیراعظم الیکٹیڈ ہوگا یا سلیکٹیڈ؟

386

یہ حقیقت ہے کہ ۷۴ برسوں میں بنے والا ہر جمہوری دور مشکوک رہا ہے یہ سیاسی جماعتوں کا المیہ ہے کہ جیت جائیں تو آئین مقدم ہے اور ہار جائیں تو بااثر اداروں پر مداخلت کے الزام عائد کر دیے جاتے ہیں اگر ہم ماضی پر نظر ڈالیں تو ن لیگ اور پیپلزپارٹی جو آج غیر آئینی اقدام سیاست میں مداخلت کے خاتمے کا شور مچارہی ہیں تینوں ادوار میں یہ دونوں جماعتیں ان ہی بااثر اداروں کی پس پردہ حمایت سے اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوتی آئی ہیں۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ سیاست میں اداروں کو ملوث کرنے کی روایت ڈالنے والی ہماری اپنی ہی سیاسی جماعتیں ہیں جو اقتدار کی ہوس میں کسی بھی غیر آئینی اقدام کی مکمل حمایت کرتی آئی ہیں۔ جس کی وجہ سے آج جمہوریت مستحکم بنیادوں پر پروان نہیں چڑھ سکی۔ تحریک انصاف کی حکومت کو شروع دن سے سلیکٹیڈ حکومت کا طعنہ دیا جاتا رہا ہے اور خدا کی شان کہ طعنہ بھی وہ لوگ دے رہے ہیں جو خود چور دوزاے سے اقتدار آتے رہے ہیں۔
یہ قوم جانتی ہے کہ مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی جو ہمیشہ سیاسی حریف رہے ہیں اور جو اپوزیشن میں ہوتے ہوئے ایک دوسرے کے کالے کرتوتوں کی داستان قوم کو سناتے آئے ہیں کیا محترمہ شہید نواز شریف کو ملک اور اداروں کے لیے خطرہ قرار نہیں دیتی رہیں کیا نواز شریف زرداری صاحب پر سنگین ترین الزامات عائد نہیں کرتے رہے ہیں کیا یہ دونوں جماعتیں اداروں کو متنازع بنانے کی سازش میں ملوث نہیں رہی ہیں ان جماعتوں نے عدالت پر چڑھائی تک کی، عدالتوں کے فیصلوں سے لے دفاعی کے اداروں کی ملک بیرون ملک بیٹھ کر دھجیاں اُڑا دی گئیں۔
آج یہ شور برپا ہے کہ میاں صاحب وطن واپس آرہے ہیں ڈیل ہوگئی ہے ادارے موجودہ حکومت سے مطمئن نہیں ن لیگ ہی اب وہ واحد آپشن ہے جو ملک و قوم کو بحران سے نکلا سکتی ہے میاں صاحب کو اب نہ ہی زندگی کا کوئی خطرہ ہے اور نہ ہی جیل جانے کا۔ ہنگامہ ہے برپا ہے کہ مولانا آرہا ہے میاں صاحب آرہے ہیں۔ تو سوال یہ اُٹھتا ہے کہ اچانک ایسا کیا ہوا ن لیگ کے معاملات کن طاقتور حلقوں سے طے پاگئے ہیں کن لوگوں نے مسلم لیگ ن کی قیادت کو یقینا دہانی کرائی ہے کہ اب سب ان کی مرضی سے طے ہوگا کہیں یہ وہی پس پردہ بااثر طاقتیں تو نہیں جن کا ذکر 2018 کے الیکشن کے بعد ن لیگ اور پیپلزپارٹی کر رہی تھیں کہ سلیکٹر نے اس قوم پر سلیکٹیڈ کو مسلط کر دیا ہے کہیں یہ وہ ہی تو نہیں جن پر سیاست میں مداخلت کے الزامات عائد ہوتے رہے ہیں۔
اگر اقتدار میں آنے کے لیے ملک کے طاقتور حلقوں ہی کی ضرورت پڑتی ہے تو پھر ووٹ کو عزت دو کا نعرہ کیوں لگایا جاتا رہا، حقیقت تو یہ ہے کہ سیاست جس کو ملک و قوم کی خدمت اور عبادت کا درجہ حاصل تھا آج سیاست کو مفاہمت کا نام دے دیا جائے تو شاید غلط نہ ہوگا اب سیاست اور اداروں کی آئینی حدود کا فیصلہ کیسے اور کون کرے گا کیوں کہ پچھلے تین سال سے جو مفاد پرست سیاستدان چیخ چیخ کر اداروں کو ان کی آئینی حدود یاد دلا رہے تھے جو آئین کے محافظ بننے کا ڈراما کر رہے تھے ایسا لگ رہا ہے آج وہ خود ہی شکار ہوگئے ہیں۔
اگر ایسا ہی چلتا رہا تو ہم مہنگائی، بے روزگاری، علاج، تعلیم، انصاف، کرپشن کے خاتمے کا رونا روتے رہیں گے اور مفاد پرست سیاستدانوں کی دکانیں چمکتی رہیں گی ان تمام باز گشت کہ میاں صاحب آرہے ہیں معاملات طے پاگئے ہیں دیکھنا یہ ہوگا کہ اگلاوزیر اعظم الیکٹیڈ ہوگا یا سلیکٹیڈ؟ فیصلہ ووٹ سے ہوگا یا پھر کوئی فیصلہ کرے گا۔