ادب کے بغیر انسان کا تصور محال ہے،معاشرتی انحطاط کی وجہ ادب سے دوری ہے

251

کراچی(رپورٹ:حماد حسین)ادب انسان کو بہتر انسان ہی نہیں بناتا بلکہ بغیر ادب کے انسان کو انسان تصور کرنا ہی محال ہے۔ادب انسان کی معنوی ترقی اور رشد کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ بظاہر تعلیم یافتہ ہو، مگر ادب سے عاری ہو تو لازم ہے کہ تعلیم کے ساتھ “تربیت” کا مرحلہ طے نہیں ہوا۔ ادب انسان کو شائستہ اور با کمال بناتا ہے۔بغیر ضبط نفس کی ریاضت کے حاصل نہیں ہوتا۔ آج کی ا س تیز رفتار دنیا میں ادب والی زندگی کو عام کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ادب اور اخلاقیات کی تعلیم عام کی جائے۔ ان خیالات کا اظہاروفاقی جامعہ اردواسسٹنٹ پروفیسر شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی ڈاکٹر رضوانہ جبیں،بے نظیر بھٹو شہید یونیورسٹی لیاری میںاسسٹنٹ پروفیسر اسلامیات ڈاکٹر گلناز نعیم اورڈی ایچ اے صفہ یونیورسٹی کے شعبہ انگلش کی پروگرام منیجر ڈاکٹر سارہ سعید کاظمی نے جسارت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ ڈاکٹر رضوانہ جبیںکا کہنا تھا کہ ہمیں بچپن سے یہ سکھایا جاتا ہے کہ بڑوں کا ادب کرنا چاہیے گویا انسان کو ادب سے زندگی گزارنا چاہیے ادب سے زندگی گزارنے والا انسان معاشرے پر اچھے اثرات مرتب کرتا ہے اور بے ادب انسان کی مثال جانور کی سی ہے انسان کو بہتر انسان بنے اور انسانیت کے دائرے میں رہنے کے لیے ادب کا سیکھناضروری ہے اگر ہم قانونی فطرت کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں یہ پتا چلتا ہے کہ ادب کے ساتھ زندگی گزارنا ایک صحت مند معاشرے کے لیے بے حد ضروری ہے انسان اشرف المخلوقات ہے ‘ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کوعقل کے ذریعے بھلائی اور برائی میں تمیز دی ہے تاکہ بہترین اعمال کے ذریعے اپنی زندگی کامیاب کر سکیں۔ آج ہمارے معاشرے میں بچے کی تربیت کا فقدان ہے جس کی وجہ سے مجموعی طورپر ادب کا بھی فقدان نظر آتا ہے اس کی ایک بڑی وجہ اخلاقی تعلیم کی کمی بھی ہے کھانے پینے پہنے اوڑھنے اٹھنے بیٹھنے کا ادب بھی انسانوں کے لیے بے حد ضروری ہے ۔تجارت کا ادب ہے کہ ناپ تول میں کمی نا کی جائے آج کی ا س تیز رفتار دنیا میں ادب والی زندگی کو عام کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ادب اور اخلاقیات کی تعلیم عام کی جائے اسماعیل میرٹھی کا یہ شعر ہے۔ادب ہی سے انسان ، انسان ہے ؛نا سیکھاادب جو وہ حیوان ہے۔بیٹھاتے نہیں بے ادب کو قریب،یہ سچ بات ہے بے ادب بے نصیب۔بے نظیر بھٹو شہید یونیورسٹی لیاری میںاسسٹنٹ پروفیسر اسلامیات ڈاکٹر گلناز نعیم کا کہنا تھا کہ ادب کے لفظی معنی ہی قاعدہ قرینہ اور طریقہ ہے، یہ انسان کو بہتر انسان ہی نہیں بناتا بلکہ بغیر ادب کے انسان کو انسان تصور کرنا ہی محال ہے۔ ابلیس اپنی بے ادبی کے باعث ہی مردود ٹھیرایا گیا تھا۔ اسلام میں ادب و احترام کو نمایاں مقام حاصل ہے اور قرآن پاک کی بہت سی آیات میں ادب و احترام کی تلقین کی گئی ہے۔ جس کا مقصد رسول اللہ کے پیروکاروں کی شخصی تعمیر کرنا ہے۔ مثال کے طور پررسول اللہ کے ادب و احترام کے لیے ایمان والوں کو مخاطب کرکے فرمایا گیا کہ وہ رسولﷺ سے اونچی آواز میں بات نہ کریں نہ ہی ان سے اس طرح کی بے تکلفانہ گفتگو کی جائے جیسے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہیں۔ پھرعرب کے ان اولین مخاطبین نے اسلام کے وضع کر دہ آداب پر عمل پیرا ہو کر نہ صرف اپنی شخصیت کی تعمیر کی بلکہ آنے والوں کے لیے مشعل راہ بن گئے۔ ادب ایک ایسا فن ہے جسے سیکھنا انتہائی ضروری ہے۔ پاکیزہ و عمدہ اخلاق و ادب تک پہنچنے کا بہترین راستہ اسلامی تعلیمات سے آشنائی اور رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ اقدس کی پیروی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب انسان ادب و تمیز کا یہ ہنر پہلے اپنے ماں باپ اور پھر بڑوں اور اساتذہ سے سیکھتا تھا۔لیکن اب مغرب کی نقالی میں رفتہ رفتہ یہ ہمارے معاشرے سے ختم ہوتا جارہا ہے۔ ہم نے ادب و شائستگی کو کمزوری اور بزدلی سمجھنا شروع کر دیا ہے۔ وہ وقت گیا جب محلے کے کسی بھی بچے کی بے ادبی پر محلے کے کسی بڑے یا بزرگ کی طرف سے بچے کو ڈانٹ دیا جاتا تھا اور اب حال یہ کہ والدین خود ان سے لڑنے لگتے ہیں آ پ ہوتے کون ہیں، ہمارے بچے کو ڈانٹنے والے! غرض کہ اپنی تہذیب سے بے اعتنائی اور اغیار کی پیروی میں ہم بھول گئے ہیں کہ ہم اس دین کے پیروکار ہیں جس نے انسان کی کردار سازی کے لیے اس کے کھانے پینے ، صفائی ستھرائی ، نشست وبرخاست ،کھیل کود ، عبادت و ریاضت اور زندگی کے ہر معاملے میں بہت سے آداب متعین کیے ہیں۔ ان آداب کو اپنا کر کوئی بھی انسان ایک بہتر انسا ن بن سکتا ہے۔ بلکہ ادب انسان پر لگی وہ خوشبو ہے جو اس کے ماحول کو بھی معطر کر دیتی ہے۔ڈی ایچ اے صفہ یونیورسٹی کے شعبہ انگلش کی پروگرام منیجر ڈاکٹر سارہ سعید کاظمی کا کہنا تھا کہ”ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں”!ادب انسان کی معنوی ترقی اور رشد کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ بظاہر تعلیم یافتہ ہو، مگر ادب سے عاری ہو تو لازم ہے کہ تعلیم کے ساتھ “تربیت” کا مرحلہ طے نہیں ہوا۔ ادب انسان کو شائستہ اور با کمال بناتا ہے۔بغیر ضبط نفس کی ریاضت کے حاصل نہیں ہوتا۔