اسرائیلی فوج نے ملک کی سیاسی قیادت کے سامنے ایران میں اہداف پر حملوں کے کئی ممکنہ منظر نامے پیش کیے ہیں۔ تاہم ساتھ ہی باور کرایا ہے کہ ان حملوں کے کسی بھی نتیجے یا تہران کے جوہری پروگرام پر ان کے اثرات کی مدت کا تعین مشکل ہو گا۔اسرائیلی اخبار Haaretz نے عسکری ذمے داران کے حوالے سے بتایا ہے کہ اسرائیلی فوج حکومت کی منظوری کے ساتھ ہی ایران پر حملے کے لیے مستعد ہو گی۔ فوج کے مطابق وہ ایران پر حملے کے “نتائج” کے لیے بھی تیاری کر رہی ہے جن میں لبنان میں حزب اللہ یا غزہ کی پٹی میں حماس کے ساتھ لڑائی شامل ہے۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ ایران پر ممکنہ حملے کے واسطے تیاری کے سلسلے میں اس نے گذشتہ مہینوں کے دوران میں جدید اسلحہ حاصل کیا اور فضائی تربیتی مشقیں بھی انجام دیں۔ اسی طرح فوج کو اس مقصد کے لیے 9 ارب شیکل (2.9 ارب ڈالر) کا اضافی بجٹ بھی مل گیا۔اسرائیلی فوج انٹیلی جنس معلومات اکٹھا کرنے کے واسطے “علاقائی شراکت داروں” کے ساتھ مل کر کام کر ہی ہے۔اسرائیلی فضائیہ کے آئندہ سربراہ میجر جنرل تومر بار نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ “ضرورت پڑی تو اسرائیل کل ہی کامیابی کے ساتھ” ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اسرائیلی اخبار Yedioth Ahronoth کو دیے گئے انٹرویو میں بار کا کہنا تھا کہ ہم نے F-35 طیاروں کے ساتھ اپنی تیاری کی اور اپنے دفاع کو مضبوط بنانے کے لیے آئرن ڈوم کے ہزاروں میزائل تعینات کیے۔رواں ماہ 12 دسمبر کو اسرائیلی اخبار Times of Israel نے انکشاف کیا تھا کہ اسرائیلی وزیر دفاع بینی گینٹز نے واشنگٹن میں امریکی ذمے داران کو آگاہ کر دیا تھا کہ انہوں نے فوج کو ہدایت جاری کر دی ہے کہ وہ ایران کے خلاف کاروائی کے لیے تیاری رکھے۔ گینٹز نے اس حوالے سے ایک نقشہِ اوقات بھی پیش کیا تھا۔اسرائیلی فوج کی رپورٹوں کے مطابق ایران نے گذشتہ برسوں میں اپنی فضائی دفاعی صلاحیتوں میں اضافہ کیا ہے اور انہیں بہتر بنایا ہے۔ اس واسطے اسرائیل کا فضائی حملہ زیادہ پیچیدہ ہو گیا ہے۔اسرائیلی حکومت کو پیش کی گئی رپورٹوں کے مطابق اگر ایران جوہری بم بنانے کا فیصلہ کر لے تو وہ ممکنہ طور پر دو برسوں میں اس ہدف کو پورا کر سکتا ہے۔مذکورہ اخبار کے مطابق اسرائیلی فوج آئندہ برس کے دوران بھی شام میں اپنی کارروائیوں اور فضائی حملوں کا سلسلہ جاری رکھنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ اس کا مقصد ایران کی جانب سے شام میں ہتھیاروں کی منتقلی پر روک لگانا ہے۔