اپنے حسن وجمال اور رنگینوں کے باعث کشمیر پوری دنیا میں بے نظیر ہے جس کی سرسبز وشاداب وادیاں بہتے ندی نالے، فلک بوس پہاڑ اور خوبصورت آبشاریں دیکھ کر مغلیہ دور کے شاعر نے کہا تھا کہ:
اگر فردوس بر روئے زمیں است
ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است
آج یہ خوبصورت خطہ ارضی شعلوں کی لپیٹ میں ہے ان شعلوں میں زندہ انسانوں کو جلایا جارہا ہے اور یہ کام بھارتی افواج کھُلے طور پر کررہی ہے اور کوئی اُس کو روکنے اور ٹوکنے والا نہیں ہے۔ آج یہ سرزمین دس لاکھ بھارتی افواج کے اجتماع کا روپ دھار چکی ہے۔ جہاں دُنیا بھر میں سب سے زیادہ فوجیوں کا اکٹھ ہے جو آئے دن خون مسلم سے ہولی کھیلتے ہیں اور آج کشمیر کی سرزمین ان بھیڑیا نما درندوں کی بنا پر سُرخ ہوچکی ہے جہاں کوئی گھر اور کوئی خاندان ان کے ظلم وستم سے محفوظ نہیں ہے۔ ایسا جبر اور ایسا ظلم جو موجودہ دور میں کسی نے دیکھا ہوگا اور نہ سُنا ہوگا لیکن اس پر ستم یہ کہ دنیا کے سامنے یہ سب کچھ ہورہا ہے جس کو تحریر کرنے سے بھی قلم عاجز ہے دنیا خاموش ہے کوئی احتجاج ہے اور نہ کہیں سے کوئی آواز بلند ہو رہی ہے، ایک سکوت ہے بلکہ سکوت مرگ پوری دنیا پر چھایا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ دنیا اپنے کاروبار میں مگن ہے، وہ انڈیا کو ایک بڑی منڈی سمجھتی ہے اور اُسے کسی قیمت پر کھونا نہیں چاہتی چاہے وہ اپنے ہی بنائے ہوئے اصولوں کو قربان کررہی ہو۔ اسی لیے تو اقوام متحدہ بھی خاموش ہے جس کا بنیادی کام ہی مظلوموں کی مدد کرنا اور اُن کو ظلم کے چنگل سے نجات دلانا ہے۔ لیکن آج وہ اپنے ہی بنائے ہوئے قوانین کو 9 لاکھ بوٹوں تلے کشمیر میں روندتے ہوئے دیکھ کر بھی خاموش ہے، کوئی احتجاج ہے نہ انڈیاکے خلاف پابندی کی کوئی قرارداد، اور کوئی صدائے احتجاج بلند ہوتی سنائی نہیں دے رہی ہے۔ لگتا یہی ہے کہ موت کی کیفیت اس پر بھی طاری ہوگئی ہے۔ اسی طرح عالم اسلام جو 57 اسلامی ممالک پر مشتمل ہے جن کے پاس سب کچھ ہے دولت کے ڈھیر، وسائل کی بہتات، افرادی قوت سب سے زیادہ رقبہ دنیا کا نصف سے بھی زائد لیکن بے وزن ہیں، سمندر کی جھاگ کی مانند ہیں، جن کی نہ کوئی سنتا ہے اور نہ کوئی اثر لیتا ہے، ویسے یہ مردہ عالم اسلام بھارت کو سُنانے کی بھی کوشش نہیں کرتا۔ انڈیا سے دوستی نبھا رہا ہے ایک طرف اسرائیل ان کا یار ہے اور دوسری طرف مودی ان کا لنگوٹیا ہے۔ ان مُردوں سے ہمیں کوئی اُمید ہے نہ ان کے اندر سکت ہے اور نہ ہی ہمت بلکہ ان کی غیرت وحمیت مرچکی ہے۔ ان لاشوں سے کیا اُمید رکھی جاسکتی ہے؟ اور یہ مردہ لاشے کرہی کیا سکتے ہیں سوائے اپنے زندہ رہنے کی بھیک مانگنے کے۔ ابھی چند دن پہلے پاکستان ہی کی سرزمین پر ان 57 ممالک کے وزراء خارجہ کا اجلاس ہوا۔ یہ ممالک کشمیریوں اور فلسطینیوں کے حق میں ایک قرارداد تک نہ لاسکے، ان سے اُمید رکھنا کہ یہ عالم اسلام پریا اُس کے کسی ملک پر بُرا وقت آنے پر اس کی مددکریں گے ایں خیال است و محال است و جنوں۔۔۔ قبرستان سے آپ کو اُمید نہ رکھنی چاہیے کہ ان میں زندگی کی کوئی رمق باقی ہوگی۔ عالم اسلام اس وقت ایک قبرستان کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلمان نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
باقی رہا پاکستان اور چند ایک دوسرے ممالک یہ مذمتی بیان جاری کرتے رہتے ہیں یا یہ میڈیا پر احتجاج ریکارڈ کراتے رہے ہیں۔ بالخصوص پاکستان کی وار انڈیاکے خلاف محض بیانات کی حدتک ہے، باقی زبانی جمع خرچ ہے یا پھر کوئی قرارداد وغیرہ انڈیا کے خلاف پاس کرلی جاتی ہے۔ زیادہ ہوا تو اُس کے ناظم الامور کو دفتر میں بلاکر چائے سے تواضع کردی جاتی ہے۔ جس طرح ہم نے پہلے انڈیا کے پائلٹ ابھی نندن کو چائے پلاکر رخصت کردیا تھا۔ یہ تماشا ایک عرصہ سے لگا ہوا ہے جس سے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کشمیر آزاد ہوجائے گا۔ بھلا ان اقدامات سے بھی کشمیر آزاد ہوگا۔ کیا آزادی اس طرح ملا کرتی ہے۔ ابھی کل ہی تو 25 دسمبر کو ہم نے قائداعظم ؒ کی برسی منائی اور ان کو اپنے تئیں خراج عقیدت پیش کیا، اُن کے اصولوں کی بات کی اور یہ تاثر دیا کہ سماجی کامیابی وکامرانی انہی اصولوں پر عمل درآمد میں ہے، قائداعظم ؒ نے کہا تھا کہ ’’کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے‘‘۔ اس شہ رگ کو بچانے اور آزاد کرانے کے لیے ہم نے کیا کیا۔ ہر روز ہم قائد کے اس فرمان کی توہین کرتے ہیں پھر بھی سب سے زیادہ قائد کے پیروکار ہم ہی ہیں۔ اس دو عملی کو منافقت ہی کہا جاسکتا ہے اور کچھ نہیں۔ آج مقبوضہ کشمیرکی سرزمین کو بھارتی افواج نے مقتل میں تبدیل کردیا ہے جہاں ہر روز بھارتی درندہ صفت افواج کشمیریوں کو بے گناہ قتل کرتی ہیں اور وہ برابر نسل کشی پر لگی ہوئی ہے۔ آج کل چلہ کلاں کے اس سخت سردی کے موسم میں گھنٹوں کشمیریوں کو گھروں سے باہر نکال کر تلاشی کے نام پر کھڑا کردیتی ہے، ہزاروں نوجوانوں کو پکڑ کر عقوبت خانوں میں اُن پر تشدد کیا جاتا ہے جہاں پر اُن کے گھر والوںکو اُن کی لاشیںملتی ہیں یا اُن کو معذور بنا کر اُن کے گھر والوں کے حوالے کردیا جاتا ہے، عزت مآب خواتین کی عصمت دری کی جاتی ہے اور اس جنسی تشدد کو بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے۔ ہزاروں گھروں کو بارود سے نذر آتش کردیا ہے۔ ہے کوئی اس ظلم عظیم پر آواز بلند کرنے والا کوئی مودی ظالم کا ہاتھ پکڑنے ولا کوئی قائد کے فرمان کے مطابق کشمیر کو آزاد کرانے والا۔ کوئی ٹھوس آواز پاکستان سے بلند ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ کشمیری تو پاکستان کی جنگ لڑرہے ہیں وہ انڈیا سے سمجھوتا کرلیں تو انڈیا اس کو سب کچھ دینے کے لیے تیار ہے لیکن صرف نظریہ کی خاطر اور پاکستان کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں، اپنے سینے پر گولیاں کھاتے اور بالآخر پاکستانی پرچم میں قبروں میں اُترجاتے ہیں۔ ظلم کی اس انتہا کو دیکھ کر پرو انڈین لیڈر فاروق عبداللہ ایک ٹی۔ وی انٹرویو میں روپڑا اور اُس نے کہا کہ وقت کے فرعون (مودی) کو برباد کرنے کے لیے موسیٰ آئے گا اور یقینا آئے گا لیکن ہم اس موقع پر پاکستان کی قیادت، سیاسی اور عسکری قیادت سے پوچھتے ہیں کہ انہوں نے کشمیر کی آزادی کے لیے جو انہی کے جسم کا حصہ ہے کے لیے عملاً کیا کردار ادا کیا۔ یہ جو ہم ہر روز ایک میزائل کا تجربہ کرتے ہیں کہ یہ حتف، نصر، غوری، شاہین اور بابر اور بلاسٹک، بابر ٹو تویہ کاہے کے لیے ہیں۔ یہ صرف نمائش ہیں اگر ان تجربات اور ایمان، تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ پر ایمان رکھنے والی فوج کی موجودگی میں انڈیا اور کشمیر کا مسلمان زخموں سے چور ہے، اس کی عزت محفوظ ہے نہ انہیں نماز پڑھنے کی اجازت ہے، نہ وہ جمعہ اور عیدین پڑھ سکیں اور اُن سے زبردستی شری رام کے نعرے لگوائے جائیں تو پھر یہ سامان حرب اور یہ سب میزائل کاہے کے لیے ہیں صرف اور صرف مظلوم مسلمانوں کی بے کسی اور بے بسی کا تماشا دیکھنے کے لیے۔ اگر تماشا ہی دیکھنا ہے تو کل اپنے اللہ کے سامنے جواب دینے کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔ بلکہ اس وقت بھی اللہ ہم سے ناراض ہے اور بہت جلد اللہ کی پکڑ میں آنے والے ہیں۔ یہی اللہ کی سنت ہے۔ فاعتبرو یااولیٰ الابصار۔