اک معما ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا

713

پاکستان میں قائد ِ اعظم محمد علی جناح کے بعد یہ بات آج تک سمجھ میں نہیں آ سکی کہ ریاست ِ پاکستان کے اصل حکمران کون ہیں۔ بے شک پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان ہی تھے لیکن جس انداز میں ان کو شہید کیا گیا وہ اس بات کی جانب واضح اشارہ تھا کہ یہاں حکمرانی کے لائق وہی ہے جس کو دیکھنے کے لیے بصارت کی نہیں بصیرت کی ضرورت ہے۔ لیاقت علی خان کے بعد تو چل میں آیا کا سلسلہ بھی یہ احساس دلاتا رہا کہ نظامِ ملکی جو بھی چلا رہا ہے اسے دیکھا نہیں جا سکتا۔ ایک عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ شاید پاکستان کی حکمرانی کا اصل سر چشمہ عسکری قوتیں ہیں۔ بات کسی حد تک دل لگتی ضرور ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فیلڈ مارشل ایوب خان تو فوجی حکمران تھے پھر ڈری اور دبی سیاسی جماعتیں کس کے حوصلہ دلانے پر اچانک منظم ہو کر ایوب خان کے خلاف میدان میں اتر پڑیں اور ان کے اس طرح میدان میں کود پڑنے کا فائدہ ایک اور فوجی جنرل نے کس طرح اور کس کے اشارے پر اٹھایا۔ پھر یہی نہیں، بلکہ ایک فوجی حکمران اس بات پر کیونکر مجبور ہوا کہ وہ جمہوریت کو فروغ دینے کے لیے پورے ملک میں الیکشن کروائے اور حکمرانی کا تاج اپنے سر سے اتار کر ایک عوامی رہنما کے سر پر رکھ دے۔ اگر کچھ دیر کے لیے یہ بات مان بھی لی جائے کہ عسکری طاقت ایوب خان اور یحییٰ خان کی صورت میں حکمرانی کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچی تھی کہ پاکستان میں اصل حکمرانی کا حق نہ صرف سویلین ہی کو ہے بلکہ وہ ہم سے بہتر پاکستان کی خدمت کر سکتے ہیں تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ الیکشن کے نتائج کو کیوں تسلیم نہیں کیا گیا اور اقتدار اْس وقت کے پاکستان میں واضح اکثریت حاصل کرنے والی جماعت کے حوالے کیوں نہ کیا گیا۔ جمہوریت کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ جس کو بھی عوام منتخب کریں اور اکثریتی رائے جس کے حق میں استعمال کریں، حکومت کرنے کا حق ان ہی کو حاصل ہوا کرتا ہے۔ اقتدار کو اکثریتی پارٹی کے حوالے کرنے کی بات تو بہت دور کی تھی، ان کو دبانے کے لیے باقاعدہ فوج کشی کی پالیسی اپنائی گئی جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان میں مغربی پاکستان کے خلاف اشتعال پھیلا اور نتیجہ پاکستان سے مشرقی بازو کی علٰیحدگی کی صورت میں نکلا۔
مغربی پاکستان جو پاکستان ہی کہلایا، اس میں اکثریت حاصل کرنے والی جماعت پی پی پی کو باقی ماندہ پاکستان کا اقتدار منتقل کر دیا گیا اور اس طرح بظاہر جمہوریت کی داغ بیل ڈالی گئی۔ اس ٹوٹے پھوٹے پاکستان میں اقتدار سنبھالنا بہر صورت کوئی آسان کام نہیں تھا۔ ایک مایوس قوم میں دوبارہ امید کی شمعیں روشن کرنا بے شک بہت ہی دشوار گزار کام تھا۔ بھٹو نے کافی حد تک پاکستان کا وقار بحال کرنے کی کوشش کی اور اسے اس میں کامیابیاں بھی حاصل ہوئیں۔ ملک کے حالات اس وقت خراب ہونا شروع ہوئے جب 1973 کے آئین کے تحت پاکستان میں انتخابات کرائے گئے۔ انتخابات کے نتائج کو ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا جس کی وجہ سے پورے پاکستان میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ ان ہنگاموں کا فائدہ ان ہی طاقتوں نے اٹھایا جنہوں نے 1958 میں اٹھایا تھا۔ جنرل ضیا الحق نے پاکستان کا اقتدار سنبھال لیا۔ ایک فوجی حکمران کے ہوتے ہوئے بھی ضیا الحق کے خلاف سیاسی پارٹیاں متحد ہونا شروع ہو گئی تھیں لیکن ضیا الحق نجانے کن کی سازشوں کا شکار ہو کر ہوائی حادثے میں خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ اقتدار ایک مرتبہ پھر ایک فوجی حکمران سے دوسرے فوجی حکمران کو منتقل ہو گیا۔ فوج ہی کی نگرانی میں ایک مرتبہ پھر جمہوریت بحال ہوئی لیکن وہ کون سی قوتیں تھیں جنہوں نے نہ پی پی پی کو اقتدار کی قانونی مدت پوری کرنے دی اور نہ ہی مسلم لیگ ن کو۔ الٹ پھیر کے نتیجے میں ایک مرتبہ پھر فوجی مداخلت ہوئی اور جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھال لیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک فوجی جرنیل کی حکومت کے خلاف وہ کس کی شرارت کارفرماں تھی جس نے اس کے اقتدار کو طول نہیں پکڑنے دیا اور سابقہ جنرلوں کی ایک بہت بڑی تعداد خود اپنے ہی جنرل کے خلاف سر گرم نظر آئی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ فوج کی جانب سے اپنے جنرل کے لیے کسی بھی قسم کا کوئی جھکاؤ بھی نہیں دکھائی دیا۔
جنرل پرویز مشرف کے دور سے ایک نیا اندازِ فکر ضرور نظر آیا کہ حکومتیں اپنی آئینی مدتیں پوری کرنے لگیں لیکن حکومت کے سب سے بڑے عہدے، وزارت عظمیٰ کو سکون سے کام نہیں کرنے دیا گیا جس کا سلسلہ تا حال جاری ہے۔ یا تو حکومت کے اعلیٰ عہدے کو نا اہلیت کا سامنا رہا یا موجودہ حکومت کو اتنا بے بس کر دیا گیا کہ عوام کو حکومت کی اپنی مرضی و منشا کہیں بھی چلتی نہیں دکھائی دی۔ ان سب حالات نے عوام کو سخت آزمائشوں میں گرفتار کر کے رکھ دیا۔ ان تمام حالات کو سامنے رکھا جائے تو یوں لگتا ہے کہ ہمارے سیاستدان اور مبصرین اصل حکمران ہماری اسٹیبلشمنٹ کو قرار دیتے ہیں، ان کو کبھی خفیہ ہاتھ، کبھی خلائی مخلوق اور کبھی نادیدہ قوت کا نام دیتے ہیں، وہ درست نہیں۔ اگر مذکورہ جماعتیں اور مبصرین افواجِ پاکستان کی جانب شک کا اظہار کرتے ہیں تو پھر اس بات کا کیا جواب دیں گے کہ فوجی حکمرانوں کے خلاف کس کا ہاتھ متحرک رہا جس کے نتیجے میں ایوب خان، ضیا الحق اور پرویز مشرف اپنے اپنے اقتدار سے محروم ہوتے رہے۔ بے شک اندرونی طور پر تو ایسا نظر آتا ہے کہ پاکستان کی اصل حکمران ہماری عسکری قوتیں ہی ہیں لیکن کیا ہماری عسکری قوتیں پوری طرح خود مختار ہیں یا یہ بھی کچھ اور طاقتوں کی جانب دیکھنے پر مجبور ہیں؟۔