بینظیر کی برسی، زرداری کی تاخیر سے آمد، جیالوں کی سوالیہ نظریں اٹھ گئیں

296

کراچی (تجزیاتی رپورٹ: محمد انور) پاکستان پیپلز پارٹی کی مقتولہ چیئرپرسن نظیر بھٹو کی چودھویں برسی گزر گئی مگر ان کے قاتل پکڑے گئے اور نہ ہی قتل کے اصل محرکات کا پتا لگایا جاسکا۔ اہم بات تو یہ ہے کہ بینظیر بھٹو کے قتل کے باعث پیپلز پارٹی کو وفاق اور صوبے میں ملنے والے اقتدار کے باوجود بے نظیر بھٹو اور ان کے والد ذوالفقار علی بھٹو کے آبائی علاقے لاڑکانہ کی صورتحال بہتر نہ ہو سکی بلکہ وہاں کے مسائل میں بے پناہ اضافہ ہو گیا۔ بینظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر گمان کیا
جاسکتا ہے کہ ان کی روح اپنے آباؤ اجداد کے ضلع لاڑکانہ اور پیپلز پارٹی کی تنظیمی حالات دیکھ کر کبھی آصف علی زرداری اور کبھی کراچی سمیت پورے سندھ کے حالات پر بے چین ہوجایا کرتی ہوگی۔ بی بی کی روح یقینا اپنے پرانے ساتھیوں نبی داد خاں (این ڈی خاں) اعتزاز احسن، تاج حیدر، جیالے سہیل عابدی ،فیصل رضا عابدی، اپنی دوست اور پارٹی کی پولیٹیکل سیکرٹری ناہید خان ،صفدر عباسی اور بہت سے جان نثار ساتھیوں کو مسلسل نظر انداز کیے جانے اور اپنے بیٹے و پارٹی چیئرمین بلاول زرداری کی بے بسی پر بھی تڑپ اٹھتی ہوگی۔ اپنی رہنما اور پارٹی کی مقتولہ بے نظیر بھٹو کی چودھویں برسی پر بھی پارٹی کے شریک چیئرپرسن اور بے نظیر بھٹو کے شوہر سابق صدر مملکت آصف علی زرداری نوڈیرو تاخیر سے پہنچے کیونکہ وہ اسلام آباد میں سیاسی معاملات میں مصروف تھے ایسا لگتا ہے کہ بے نظیر بھٹو سے متعلق تقریبات اب ان کی ترجیحات میں شامل نہیں رہیں۔ برسی کی رسومات میں شریک پارٹی کے ایک جیالے کے مطابق آصف زرداری کی نوڈیرو آمد کے اعلانات کیے جارہے تھے مگر وہ اسلام آباد میں رہنے کے باوجود بے نظیر کی برسی کی تقریب میں تاخیر سے پہنچے تھے جس کی وجہ سے متعدد اہم رہنما اور کارکن جاچکے تھے تاہم بے نظیر بھٹو کے صاحبزادے بلاول تقریب میں وقت پر پہنچ گئے تھے، وہ اپنی والدہ کی قبر کے ساتھ اپنے نانا اور دیگر ننھیال والوں کی قبور پر بھی گئے اور وہاں فاتحہ خوانی اور دعا کی۔ پارٹی کے لوگوں کا کہنا تھا کہ آصف علی زرداری کم ازکم پانچ بار بے نظیر کی برسی کے موقع پر لاڑکانہ ہی نہیں پہنچے۔ ان جیالوں کا کہنا ہے کہ یقیناً بے نظیر بھٹو کی روح آصف زرداری کی نوڈیرو آمد کی منتظر بھی رہتی ہوگی۔ وقت پر نہ پنچنے پر جیالے سوالیہ نظروں سے بلاول زرداری اور دیگر کو دیکھ رہے تھے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ نظیر بھٹو کے قتل کے بعد کراچی کا علاقہ لیاری پارٹی کا نہیں رہا جبکہ کراچی اور لاڑکانہ سمیت صوبے کی حالت ابتر ہو گئی ہے، یہاں گزشتہ 14 سال میں مسائل میں کئی سو گنا اضافہ ہوا ہے۔