ملک کے تمام حکمران قوم کو قرضوں کے جال میں پھنسا نے کے ذمے دار ہیں

732

اسلام آباد ( میاں منیر احمد) ملک کے تمام حکمران قوم کو قرضوں کے جال میں پھنسانے کے ذمے دار ہیں‘ منصوبہ بندی نہ ہونے کے باعث پی ٹی آئی حکومت نے سب سے زیادہ13 ٹریلین روپے سے زاید کا قرض لیا‘ ن لیگی حکومت میں 10ٹریلین اور پی پی حکومت میں 8 ٹریلین روپے کا قرضہ لیا گیا‘ حکومت صرف آئی ایم ایف پالیسی پر عملدرآمد کر رہی ہے‘ روپے کی قدر میں کمی اور بلند شرح سود کی وجہ سے بھی ملکی قرضوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ان خیالات کا اظہار ممتاز تجزیہ کار اجمل خان ، ماہر معاشیات ڈاکٹر اشفاق حسن خان،ماہر معیشت صائم علی، عدالت عظمیٰ کے سینئر قانون دان ڈاکٹر صلاح الدین مینگل،جماعت اسلامی شمالی پنجاب کے رہنما اقبال خان، نیشنل لیبر فیڈریشن کے صدر شمس الرحمن سواتی، مسلم کانفرنس کے رہنما سردار محمد عثمان خان ، مسلم کانفرنس کے رہنما سردار محمد عثمان خان اور پیپلزپارٹی کے رکن قومی اسمبلی افتخار احمد خان نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ’’ملک کو قرضوں کے جال میں پھنسانے والے حکمران کون ہیں؟‘‘ اجمل خان نے کہا کہ حکومتی قرض سے مراد کسی ملک پر واجب الادا قرضہ (ادھار) ہوتا ہے‘حکومتی قرضوں کی خاص بات یہ ہوتی ہے کہ قرض لینے والا کوئی اور ہوتا ہے اور قرض بھرنے والا کوئی اور ہوتاہے‘ قرض لینے والے بددیانت لیڈر ہوتے ہیں جبکہ حکومت کا یہ سارا قرضہ آخر کار اس ملک کے
ٹیکس دہندگان کو بھرنا پڑتا ہے جس میں انفلیشن ٹیکس بھی شامل ہے‘ 13 نومبر 2021 کو سینیٹ کو بتایا گیا ہے کہ موجودہ حکومت کے3 سالہ دورمیں پاکستان کے کل قرضوں میں16ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا اور مجموعی قرض41 ہزار ارب روپے تک پہنچ گیا ہے‘حکومت قرضوں پر سود کی ادائیگی کی مد میں7 ہزار460 ارب روپے ادا کر چکی ہے‘ جب وزیراعظم عمران خان اپوزیشن میں تھے تو انہوں نے مسلم لیگ نواز کی اس وقت کی حکومت پر الزام عاید کیا تھا کہ اس نے ملکی معیشت کو قرضوں کا محتاج بنا دیا ہے تاہم ان کے اپنے دور اقتدار میں مجموعی قرضوں میں تقریباً13 ٹریلین روپے کا اضافہ ہو چکا ہے۔ اقتصادی سروے میں1971ء سے لے کر اب تک قرضوں کی تفصیل دی گئی ہے جس کے مطابق 1970ء میں پاکستان پر مجموعی قرض صرف30 ارب روپے تھا‘ بھٹو دور حکومت کے خاتمے پر1977ء میں مجموعی قرض97 ارب روپے ہو گیا تھا‘ 1988ء میں ضیا حکومت کے خاتمے کے وقت ملک کا مجموعی قرض523 ارب تک پہنچ گیا‘ ان کے دور میں قرضوں میں426 ارب روپے کا اضافہ ہوا ۔ جب اگست 1990ء میں بے نظیر بھٹو کی حکومت برطرف ہوئی تو اس وقت ملک کا مجموعی قرض 711 ارب روپے تک پہنچ چکا تھا۔ ان کے دور میں قرض میں188ارب روپے کا اضافہ ہوا تھا۔ نواز شریف کی حکومت جولائی1993ء میں ختم ہوئی تو اس وقت مجموعی قرض1135 ارب روپے ہو گیا‘ ان کے دور میں قرض میں422 ارب کا اضافہ ہوا۔ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت نومبر1996ء میں ختم ہوئی تو ملک کا مجموعی قرض 1704 ارب روپے ہو چکا تھا‘ ان کے اس دور میں ملک کا قرض 569 ارب روپے بڑھا تھا۔ 1996ء میں نواز شریف کا دوسرا دور حکومت شروع ہوا اور جب اکتوبر 1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے ان کی حکومت ختم کی تو ملک کا مجموعی قرض 2946 ارب روپے تک پہنچ گیا تھا۔ گویا نوازشریف کے دوسرے دور اقتدار میں قرض میں 1242 ارب روپے کا خطیر اضافہ ہوا تھا۔ مشرف نے بالواسطہ یا بلاواسطہ حکومت کی اور جب ان کے اقتدار کا سورج 2008ء میں غروب ہوا تو پاکستان کا قرض 6127 ارب تک پہنچ چکا تھا‘ ان کے دور میں ملک پر3181 ارب روپے کا مزید قرض کا بوجھ پڑا۔ اس کے بعدپیپلز پارٹی کا دور حکومت شروع ہوا جس کا خاتمہ 2013ء میں ہوا تو ملک کا قرض 14.2 ٹریلین روپے ہو چکا تھا جس کا مطلب ہے اس دور میں قرض میں 8 ٹریلین سے زاید کا اضافہ ہوا۔مسلم لیگ نواز کی حکومت2013ء سے 2018ء تک قائم رہی اور اس دوران ملک کا قرض 14.2 سے 24.9 ٹریلین تک پہنچ گیا جس کا مطلب ہے اس دور میں 10 ٹریلین سے زاید کا قرض لیا گیا۔پی ٹی آئی کے موجودہ دور میں اب تک 3 سال میں 13 ٹریلین روپے سے زاید کا قرض لیا جا چکا ہے جو اب تک کی پاکستانی تاریخ میں کسی ایک دور حکومت میں لیا جانے والا سب سے زیادہ قرضہ ہے۔ پاکستان پر اندرونی و بیرونی قرضوں کے اس بے تحاشا بوجھ کی وجہ سے ماہرین اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ ملک کے ذمے واجب الادہ قرضوں کا حجم پاکستان کی قرضوں کی واپسی کی صلاحیت کو متاثر کر رہا ہے‘ پاکستان پر قرضوں کا بوجھ بڑھنے میں ملک کے بڑھتے ہوئے مالیاتی خسارے کے علاوہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی اور شرح سود کا بلند ہونا بھی ہے جن کی وجہ سے بیرونی اور اندرونی قرضوں میں بے تحاشا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ وزارت خزانہ کے ترجمان نے شرح سود اور ڈالر کی قیمت میں اضافے کے ساتھ کورونا وائرس اور پورے ملک میں لاک ڈاؤن کی کیفیت کے نتیجے میں ملکی معیشت کو پہنچنے والے نقصان، ٹیکسوں کی وصولی میں کمی اور حکومت کی جانب سے مختلف شعبوں کے لیے دیے گئے امدادی اور مراعاتی پیکج کو بھی خسارے کی وجہ قرار دیا جس نے قرضوں میں اضافہ کیا ہے۔ وزارت خزانہ کے مطابق ملک پر اس وقت مجموعی طور پر قرضے کا حجم36 ہزار ارب سے زاید ہے جو ملکی جی ڈی پی کا87 فیصد بنتا ہے۔ ڈاکٹر اشفاق حسن خان نے بھی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی اور بلند شرح سود کو ملکی قرضوں کے بوجھ میں اضافے کا ذمے دار ٹھہرایا۔ انہوں نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ڈالر کی قیمت میں اضافہ اور بلند شرح سود نے پاکستان کے قرضوں کے حجم میں خوفناک حد تک اضافہ کر دیا ہے‘ اس کاذمہ دار آئی ایم ایف ہے اور اس کی دی گئی پالیسی کو ملک میں نافذ کرنے والے افراد ہیں‘ ملک میں شرح سود کو بلند سطح پر رکھنے کی شرط آئی ایم ایف کی تھی جسے اسٹیٹ بینک نے پورا کیا تو اسی طرح روپے کی قدر میں کمی بھی بین الاقوامی مالیاتی ادارے کی ایک بنیادی شرط تھی جسے بغیر کسی مزاحمت کے مان لیا گیا اور ملک کی کرنسی میں بے تحاشا کمی کی گئی‘ اس حکومت کی کوئی مربوط پالیسی نہیں ہے اور ان کی پالیسی صرف آئی ایم ایف کی جانب سے دی گئی پالیسی کا نفاذ ہے‘یہ کیسی پالیسی ہے جس نے ملک پر قرضوں کے بوجھ کو مزید بڑھا دیا ہے۔ ماہرین کے مطابق پرانے قرضے کو واپس کرنے کے لیے نیا قرض لینا پڑ رہا ہے جو مجموعی قرضے کے حجم میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ صائم علی نے کہا کہ قرضوں کا یہ بوجھ اس وقت بے حد تشویشناک صورت اختیار کر چکا ہے اور انہوں نے ملک کے مالیاتی خسارے کو اس کی سب سے بڑی وجہ قرار دیا اور کہا کہ جب ایک ملک مسلسل خسارے میں جا رہا ہو تو یہ رجحان زیادہ دیر تک بر قرار نہیں رہ سکتا اس لیے پھر آپ کو قرض لینا پڑتا ہے‘ ملک کی مجموعی قومی آمدنی اور اخراجات کے درمیان فرق کی وجہ سے حکومت کو ملکی اور غیر ملکی ذرائع سے پیسے ادھار لینے پڑتے ہیں۔ وزارت خزانہ کے ترجمان نے کہا کہ حکومتی پالیسی کے تحت قرضوں کو کنٹرول کرنے کے لیے قرضوں کی واپسی کی مدت میں اضافہ کیاگیا‘ جیسے کہ اندرونی قرضے کے لیے یہ مدت ڈیڑھ سال سے 4 سال سے زاید کر دی گئی ہے ۔ تجزیاتی میڈیارپورٹ کے مطابق تحریک انصاف کی جانب سے گزشتہ 3 سال میں قرضوں میں اضافہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے5 سال میں حاصل کیے گئے کل قرضوں کے 140 فیصد کے برابر ہے‘اعداد و شمار کا مزید جائزہ لیا جائے تو تحریک انصاف کی حکومت کے 3 سال میں قرضوں میں14906 ارب روپے کا جو اضافہ ہوا وہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے 10 سال میں لیے گئے کل قرضوں کا 80 فیصد بنتا ہے۔ ڈاکٹر صلاح الدین مینگل نے کہا کہ موجودہ حکومت نے اس قدر غیر ملکی قرض لیا جو گزشتہ 70 سال میں نہیں لیا گیا اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت کے پاس کوئی معاشی منصوبہ بندی نہیں ہے۔ اقبال خان نے کہا کہ اس ملک میں آج تک جتنے بھی حکمران آئے‘ ان سب نے غیر ملکی قرضوں کا بوجھ قوم پر لادا ہے اور یہ لوگ چلے گئے ہیں مگر قوم اس عذاب کو بھگت رہی ہے اور آئندہ بھی ہمیں یہ قرضے تکلیف پہنچاتے رہیں گے‘ اس کا حل یہ ہے کہ ملکی انڈسٹری کو کام کرنے دیا جائے تاکہ یہ انڈسٹری ملکی مصنوعات کو عالمی منڈی میں فروخت کرکے زرمبادلہ کمائے۔ شمس الرحمن سواتی نے کہا کہ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں اس ملک میں جمہوری، نیم جمہوری اور آمرانہ حکومتیں رہی ہیں اور کوئی حکومت یہ دعویٰ نہیں کر سکتی کہ وہ غیر ملکی قرضوں کا بوجھ قوم پر لاد کر نہیں گئی یہاں ہر حکمران یہ کام کرکے گیا ہے۔ سردار محمد عثمان خان نے کہا کہ ہر وہ حکومت جو اینٹی اسٹیبلشمنٹ تھی وہ ملک کو قرضوں کے بوجھ تلے دبا کر گئی ہے اور آنے والی حکومتوں نے اس کا بوجھ اتارنے کی کوشش کی ہے۔ زاہد قریشی نے کہا کہ جس حکومت کو عوام کی تائید حاصل نہیں تھی اور وہ حکومت ملک کو قرضوں کے نیچے لائی ہے ۔ افتخار احمد خان نے کہا کہ تحریک انصاف ملک کو قرضوں تلے دبانے کی ذمہ دار ہے۔