شرحِ نمو کی بہتری کے لیے چند تجاویز

881

یہ امر ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ وطنِ عزیز کے بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے کو کم کرنے، قومی معیشت کو مستحکم کرنے اور روزگار کے مواقع بڑھانے کے لیے صنعتی ترقی قومی معیشت کی بنیادی ضرورت ہے۔ اور یہ کہ وطن عزیز پہلے ہی اس دوڑ میں خطے کے کئی ممالک سے بہت پیچھے ہے۔ ہمارے سامنے بنگلا دیش، بھارت اور ویتنام وغیرہ کی مثالیں ہیں جنہوں نے حالیہ چند برس کے دوران صنعتی ترقی میں نمایاں پیش رفت کی ہے جس سے ان ممالک کی برآمدات میں بھی قابل ذکر اضافہ ہوا ہے اور معاشی شرحِ نمو میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ جنوبی ایشیا کی معیشت پر ورلڈ بینک کی تازہ رپورٹ جو ستمبر کے آخر میں جاری کی گئی، پاکستان اور خطے کے دیگر ممالک کی شرحِ نمو، صنعت کاری، برآمدات، درآمدات اور معیشت کے دیگر اہم اشاریوں کی کافی واضح تصویر پیش کرتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2022-23ء میں پاکستان، بنگلا دیش اور بھارت میں جی ڈی پی کی شرح نمو بالترتیب 6.9 فی صد، 7.5 فی صد اور 4 فی صد رہے گی جبکہ صنعت کاری، خدمات اور زراعت کے شعبوں میں پاکستان کے اشاریے بنگلا دیش اور بھارت سے بہت پیچھے ہیں۔ صنعت کاری میں بھارت اور بنگلا دیش کی شرحِ نمو بالترتیب 8.5 فی صد اور 6 فی صد کا تخمینہ لگایا گیا ہے جبکہ پاکستان میں صنعتی نمو کی شرح 4.3 فی صد رہے گی، جو اس خطے میں سب سے کم ہے۔ اس طرح زراعت کی شرح نمو 2023ء میں بھارت اور بنگلا دیش میں بالترتیب 4.6 فی صد اور 3.5 فی صد رہے گی جبکہ وطن عزیز میں یہ 2.7 فی صد ہوگی۔ معیشت کے یہ چند بنیادی شعبے روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور خدمات کے شعبے کی ترقی کے کلیدی ذمے دار مانے جاتے ہیں، مگر جب صنعتی ترقی کی شرح ہی خطے کے دیگر ممالک کی نسبت کم تر ہوگی تو خدمات کے شعبے کی رفتار کیونکر ترقی کرسکتی ہے۔ 2023ء میں بھارت اور بنگلا دیش میں خدمات کے شعبے کی نمو کا تخمینہ بالترتیب 5.9 فی صد اور 7.3 فی صد لگایا گیا ہے جبکہ پاکستان میں یہ 4.4 ہے۔
خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں وطن عزیز میں صنعتی نمو کی شرح کیوں سستی کا شکار ہے، اس کی متعدد وجوہ ہیں مگر کسی ایک بنیادی فیکٹر کا ذکر کریں تو یہ حکومتی پالیسیوں اور فیصلوں کا عدم تسلسل اور ناپائیداری ہے۔ جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک جنہوں نے صنعت کاری کے شعبے میں وطن عزیز سے کم وقت میں زیادہ ترقی کی، وہاں اس حوالے سے فیصلوں میں پائیداری ملے گی، جس سے پُر عزم انداز سے کسی ہدف کی خاطر کوشش ممکن ہوئی جبکہ ہمارے ہاں اس دوران ہر آنے والی حکومت نے اپنے اندازے سے ترقی کا سفر نئے سرے سے شروع کرنے کی کوشش کی، نتیجتاً صنعتی ترقی کے خواب بڑی حد تک ادھورے رہ گئے۔ چنانچہ موجودہ حکومت اگر ماضی کی اس روش سے سبق حاص کرلے تو یہ ملک میں صنعتی ترقی یقینی بنانے کی جانب ایک بڑا قدم ہوسکتا ہے۔ صنعت کاری اور سرمایہ کاری کے لیے بااعتماد ماحول پیدا کرنا بنیادی ضرورت ہے مگر ہماری حکومتیں نہ صرف یہ کہ ماضی کی حکومتوں کے اقدامات کو جاری رکھنے میں ناکام ثابت ہوتی ہیں بلکہ اپنے اکثر فیصلوں کو بھی جب چاہتی ہیں تبدیل کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتیں۔ نئی صنعتوں کے لیے ٹیکسوں میں چھوٹ، بجلی کے نرخوں میں رعایت یا ایسی ہی دیگر مراعات کا اعلان کردیا جاتا ہے۔ مگر اچانک ایسے فیصلے بھی سامنے آجاتے ہیں جو ان مراعات کو ختم کردیتے ہیں۔ یہ بے اعتمادی ملک میں نئی صنعتوں اور سرمایہ کاری کے لیے بڑی رکاوٹ ہے اور اس کے اثرات ہمارے سامنے ہیں کہ ہماری حکومتوں کی مسلسل یقین دہانیاں اور کاروباری رعایتوں کے اعلان بھی نئے صنعتی منصوبوں کے لیے زیادہ پرکشش ثابت نہیں ہوتے۔ سی پیک کے تحت مکمل ہونے والے انڈسٹریل زونز میں صنعتی سرگرمیوں کی سست روی اس کی واضح مثال ہے۔ چنانچہ ملک میں صنعتی سرمایہ کاری کے راستے کھولنے کے لیے یہ اصول بنالینا چاہیے کہ صنعتی شعبے کے لیے جو وعدے کیے جائیں ان کا ہر صورت میں پاس رکھا جائے۔
ہمیں یہ بھی علم ہونا چاہیے کہ قومی معاشی پالیسیاں خلا میں نہیں بنائی جاسکتیں۔ ہمیں اپنے خطے کے دیگر ممالک، جو صنعتی شعبوں میں ہمارے مدمقابل بھی ہیں، کے حالات و واقعات کا جائزہ لیتے ہوئے اور ان کی پالیسیوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ نئی صنعتوں کے لیے مراعات اور آسانیوں کے معاملے میں خطے کے دیگر ممالک کو نظر انداز کرتے ہوئے ہم پائیدار ترقی کی توقع نہیں کرسکتے۔ صنعتوں کے لیے قرض ایک بنیادی ضرورت ہے مگر جنوبی ایشیا کی دیگر اُبھرتی ہوئی معیشتوں کے مقابلے میں پاکستان میں تقریباً دوگنا شرح ہے، یوں قرضوں کی لاگت بڑھ جاتی ہے اور سرمایہ کاری کے لیے یہ صورت حال پرکشش نہیں رہتی۔ حکومت اگر ملک میں صنعتی ترقی کے لیے سنجیدگی سے اقدامات کرنا چاہتی ہے اور ظاہر ہے کہ اس کے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں، تو مالیاتی فیصلوں میں صنعتی شعبے کے مفادات کو ترجیحاً مدنظر رکھا جانا ضروری ہے۔ اس طرح ہمارا توانائی کا شعبہ جو مسلسل بحران سے دوچار ہے اس کے لیے جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ توانائی کے لیے ماحول دوست وسائل تو ترجیحات میں شامل ہونا ہی چاہئیں مگر یہ بھی اہم ہے کہ ان کی لاگت ایسی ہو کہ ابھرتی ہوئی صنعتوں کے لیے یہ توانائی بھاری بوجھ بن جائے۔ ہمارے ہاں درآمدی گیس سے پیدا کردہ مہنگی بجلی صنعتوں کو سبسڈی پر مہیا کی جاتی ہے اور اس کا بوجھ حکومت کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ یہ ماڈل پائیدار صنعت کاری کے لیے مناسب نہیں جبکہ ملکی سطح پر گیس کے پیداواری وسائل میں مسلسل گراوٹ اور قدرتی گیس کی درآمد پر بڑھتا ہوا انحصار بھی صنعتی شعبے کے پائوں کی زنجیر بنتا جارہا ہے۔ اس کے نتیجے میں اکثر صنعتوں کو سال کا اکثر حصہ گیس کے بحران کا سامان کرنا پڑتا ہے۔ حکومت کو اس مسلسل شدت اختیار کرتے ہوئے مسئلے کی جانب ترجیحاً غور کرنا ہوگا۔ درآمدی گیس کے بغیر اگر مسئلے کا کوئی حل نہیں تو کوشش کی جانی چاہیے کہ سستی گیس حاصل کی جائے، اس کے لیے ڈیمانڈ، سپلائی کی صورت حال کا پیشگی اندازہ لگانے اور قبل از وقت فیصلہ کرنے کی قابلیت پیدا کرنا ہوگی۔ صنعتی بحران اور معاشی منصوبہ بندی کے نقائص کو سمجھنے کے لیے ہمیں اپنی تاریخ سے سیکھنے کو بہت کچھ مل جاتا۔ ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح 60ء کی دہائی میں جنوبی کوریا نے پاکستان سے ترقیاتی منصوبہ بندی سیکھی۔ ہماری حکمت عملی اور منصوبہ بندی کو بنیاد بنا کر چلنے یہ ملک آج صف اول کی صنعتی اور معاشی قوتوں میں شمار ہوتا ہے جبکہ پاکستان آج بھی اسی دائرے میں گردش کر رہا ہے۔ اس کے اسباب معلوم ہیں کہ ہر آنے والے نے جب اپنی سوچ کے مطابق سفر نئے سرے سے شروع کیا تو ترقی کی جڑیں گہری نہیں ہوسکیں۔ پائیدار ترقی کے لیے اس رجحان کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔