کراچی (رپورٹ: خالد مخدومی) امریکا اور چین کے درمیان اقتصادی بالادستی کی کشمکش سرد جنگ کا روپ اختیار کر چکی ہے‘امریکا اور چین کی سرد جنگ اقتصادی اور معاشی منصوبوں کے درمیان گھوم رہی ہے‘ امریکا میں سیکڑوںکارخانے بند ہوچکے ہیں‘ سنگیانگ میں انسانی حقوق کا مسئلہ، ہانگ گانگ کی علیحدہ حیثیت کے خاتمے اور تائیوان، چین تنازع پر امریکی پروپیگنڈے نے بھی سرد جنگ کو تیز کیا ہے‘ امریکا انسانی حقوق کے نعرے کو بطور ہتھیار استعمال کرتا ہے‘چین اور امریکا سرد جنگ جیتنے کے لیے اپنے دوستوں کی تعداد بڑھانا چاہتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار اسلامی جمعیت طلبہ کے سابق ناظم اعلیٰ عبدالملک مجاہد، جماعت اسلامی کے شعبہ بین الاقومی امور کے ماہر ایوب منیر، معروف دانشور اور خارجہ اموار کے ماہر ڈاکٹر مسعود ابدالی اور جامعہ کراچی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی پروفیسر ڈاکٹر شائستہ تبسم نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’ کیا امریکا اور چین کی کشمکش ایک نئی سرد جنگ میں ڈھل جائے گی؟‘‘ایوب منیر کا کہنا تھا کہ سفارتی اور اقتصادی میدان میں چین کی پیش رفت نے امریکا کو تشویش میںمبتلا کردیا ہے‘ امریکا اپنے شہریوں کو چین کا تعارف ایک دشمن ملک کے طور پر کر ارہا ہے‘ یہ سرد جنگ بنیادی طور پر اقتصادی اور معاشی منصوبوں کے گرد گھوم رہی ہے‘ چین اور امریکا اپنے دوستوں کی تعداد بڑھانا چاہتے ہیں اور ایک دوسرے کے مخالفین کی تعداد میں اضافہ چاہتے ہیں‘ اس مقصد کے لیے امریکا انسانی حقوق کے مسئلے کو بطور ہتھیار استعمال کرتا ہے‘ سنگیانگ کے مسلمانوں کے حقوق کی بات کرتا ہے ‘ امریکا اپنے نظریہ قومی مفاد کو پروان چڑھا رہا ہے‘ چین اس کے بالکل برعکس اقتصادی برکات پھیلانے کے نظریے کو ہمسائیہ ممالک تک پھیلانے پر کاربند ہے۔ عبدالملک مجاہد نے کہا کہ چین، امریکا سرد جنگ کا آغا ز امریکی صدر بارک اوباما کے دور میںہو ا‘ اس سرد جنگ میں وقت کے ساتھ ساتھ شدت بھی آتی رہے گی‘ امریکا اپنی پالیسی کے مطابق چین سے اقتصادی تعاون جاری رکھے گا‘ ساتھ ہی ضرورت پڑنے پرا س کو آنکھیں بھی دکھائے گا‘ واشنگٹن کے اطراف میلوں تک موجود سیکڑوں کارخانے بند ہوچکے ہیں‘ ان کی جگہ چین سے درآمد شدہ اشیا لے چکی ہیں۔ ڈاکٹر شائستہ تبسم نے کہا کہ سرد جنگ کا تھیٹر دنیا میں ہمیشہ لگا رہتا ہے‘ اس سے قبل یہ یورپ اور اس کے اطراف لگتا تھا‘ اب یہ خصوصاً جنوبی ایشیا اور مشرقی وسطیٰ میں لگا ہے‘ اس خطے میں2 عالمی طاقتوں امریکا اور چین کے درمیان معاملات تیزی کے ساتھ خراب ہو رہے ہیں‘ امریکا کسی طور پر یہ نہیں چاہے گا کہ افغانستان میں چین اپنے قدم جمائے اور اس خطے میں امریکی مفادات کو نقصان پہنچے ‘ اس وقت مشرقی وسطیٰ میں امریکا شدید دبائو کا شکار ہے جہاں چین اور روس کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں امریکا کے لیے پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہیں‘ امریکا کے لیے یہ بات بھی تشویش کا باعث ہے کہ چین کی اقتصادی سرگرمیاں امریکی معیشت کے لیے خطر ے کا سبب بن رہی ہیں‘ امریکا سائوتھ چائنا سی کے اطراف اپنی طاقت بڑھا رہا ہے‘ کچھ جزائر پر جاپان اور چین کے درمیان تنازع ہے جس کو وہ استعمال کر رہا ہے ‘جب کہ چین شمالی کوریا کے ساتھ مل کر خطے میں اپنی بالادستی قائم کرنا چاہتا ہے‘ امریکا بھارت کو اپنے گروپ میں شامل کر رہا تو دوسری طرف چین بنگلادیش، سری لنکا اور میانمار سے تعلقات بڑھا رہا ہے۔ مسعود ابدالی نے کہا کہ ٹرمپ نے اپنی پالیسی کے ذریعے اس عسکری کشیدگی کو اقتصادی کشیدگی میں تبدیل کردیا‘ ٹرمپ انتظامیہ نے چین پر سخت معاشی پابندیاں لگائیں‘ جوبائیڈن کی قیادت میں امریکا خود کو دنیا کی سب سے بڑی فوجی و اقتصادی طاقت کے طور پر دیکھتا ہے‘ کشیدگی کی وجہ بحرالکاہل میں چین کی بڑھتی ہوئی فوجی قوت بھی ہے جہاں چین مصنوعی جزیرے بناکر ان کو اپنے فوجی اڈوں میں تبدیل کرچکا ہے‘ یہ وہ سمندری راستہ ہے جو بحرالکاہل سے آبنائے مالاکہ سے ہوتا ہوا بحر ہند کی طرف جاتا ہے ‘ دنیا کی تقریباً آدھی آبادی اس کے اطراف میں ہے جس پر قبضے کی خواہش نے امریکا اور چین کے درمیان سرد جنگ کو شدید کیا ہے‘ امریکا نے اس خطے پر اپنی بالادستی کے لیے ایک4 رکنی اتحاد بھی قائم کر چکا ہے جس میں بھارت، آسٹریلیا اور برطانیہ اس کے ساتھ شامل ہیں ‘ دوسری بڑی سرد جنگ میں تبدیل ہوچکی ہے۔ ڈاکٹر مسعود ابدالی نے کہا کہ امریکا اور چین کے درمیان کشمکش تو چین کے قیام کے ساتھ ہی شروع ہوگئی تھی تاہم 2017ء میں اس کی جہت تبدیل ہوگئی ہے سرد جنگ میں اس وقت مزید تیزی آئی جب امریکا نے چین پر سخت معاشی پابندیاں لگائیں‘ چین سے درآمدات پر محصولات کی شرح میں کئی گنا اضافہ کیا گیا‘ علی بابا اور ہواوئے سمیت چین کی متعدد بڑی کمپنیو ں پر امریکا میںکارروبار کے لیے سخت پابندیاں لگائیں‘ چین کے اتحادی شمالی کوریا کو دبائو میں لینے کے لیے امریکا جنوبی کوریا اور جاپان کے ساتھ ملکر ہر 6 ماہ بعد وہاں فوجی مشقیں کرتا رہا ہے‘2021ء میں آنے والی نئی امریکی انتظامیہ کو باراک اوباما انتظامیہ کا تسلسل قرار دیا جاسکتا ہے ‘چین اور امریکا کے درمیان سرد جنگ ایک مرتبہ پھر محض تجارتی بالادستی سے آگے بڑھ کر عسکری بالادستی تک پہنچ چکی ہے۔