ریاست مدینہ اور پنشنرز

449

پاکستان کو ریاست مدینہ یعنی فلاحی ریاست کے اسلامی ورژن میں تبدیل کرنے کا تصور بہت خوبصورت ہے۔ مدینہ کی ریاست میں اسلام کے دوسرے خلیفہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کسی کتے کو اس خوف سے بھوکا نہیں رہنے دیتے تھے کہ کہیں اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دینا پڑے گا۔ فلاحی ریاست میں ہر فرد ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اور ریاست شہریوں کی معاشی اور سماجی بہبود کی حفاظت اور فروغ دیتی ہے۔ اس خواب کو پورا کرنے کے لیے یعنی پاکستان کو ریاست مدینہ میں بدلنے کے لیے حکومت وقت نے کچھ جامع منصوبہ بنائے ہیں جو قابل تحسین ہیں ، نظرانداز بزرگ ریٹائرڈ شہری کی طرف بھی خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے، انسانی زندگی کے اس اہم پہلو کو بھی منصوبے میں شامل کیا جائے۔ سب سے پہلی اور اہم یہی بات یہ ہے کہ آبادی کے بزرگ شہری کا خصوصی خیال رکھنا اور ان کی بقیہ زندگی کو آسان بنا نا بے حد ضروری ہے۔
ای او بی آئی پنشنرز ویلفیئر ایسوسی ایشن ایپوا کے پاس، پاکستان کے اعلیٰ ترین قائدین پر زور دینے کی وجوہات ہیں کہ وہ بزرگ شہریوں کو درپیش مشکلات کے حوالے سے اس اہم اور سنجیدہ تشویش ناک صورتحال پر غور کریں اور ان کی داد رسی کے لیے جلد اقدامات اٹھائیں۔
آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے ۔ ڈیجیٹل ورلڈ آرڈر کا بڑا زور ہے ہر شعبے میں ترقی ہو رہی ہے۔ سیکنڈوں میں خبریں جنگل کی آگ کی طرح پھیل جاتی ہیں۔ پاکستان کی پہلی نسل سے تعلق رکھنے والے بزرگ شہری جنہوں نے ملک کی ترقی کے لیے اپنی جوانی اس آس پر محنت مشقت میں گزاردی کے مستقبل میں
آنے والی نسل اور حکومت ان کا بھی خیال کرے گی۔ لیکن افسوس ان کے ساتھ ہونے والی زیادتی نا قابل بیان ہے۔ اب ہر دن کا آغاز کسی نہ کسی کی موت کی اطلاع سے ہی ہوتا ہے۔ شاید ہی کوئی دن ایسا ہوا کسی کے فوت ہونے کی اطلاع نہ سننے کو ملی ہو۔ سوشل میڈیا پر آئے دن اسی قسم کی خبر دں کی شروعات سے ہوتی ہے۔ پاکستان کے بزرگ پنشنرز ساتھی اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ انہوں نے اپنے آخری ایام تنگ دستی ، بیماری اور فاقے میں گزاری۔ خاطرخواہ رقم نا ہونے کی وجہ سے علاج اور ادویات میسر نا ہو سکی، مالی مشکلات سے دوچار رہے اور قرض ادھار کے چنگل میں پھنس گے تھے اور آج فانی دنیا سے رخصت ہو گے۔ پاکستان کے بزرگ پنشنرز کی ایک بڑی تعداد جنہوں نے اپنی زندگی اور تجربہ اس ملک کی معاشی اور صنعتی ترقی کے لیے پیش کیا
ہے وہ کرئہ ارض پر اپنے وجود کے آخری سرے پر زندگی کی بنیادی ضروریات کا انتظام نہ کرنے کے باعث شدید معاشی اور ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔
1 اپریل 1976 کو وجود میں آنے والا ادارہ ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹی ٹیوشن جو کہ ایک سماجی انشورنس کا ادارہ ہے۔ فروری 1982 میں فعال ہوا۔ اس کی ذمہ داری ہے کہ یہ ادارہ بزرگ پنشنرز کا خصوصی خیال کرتے ہوئے ان کے لیے کام کرے۔ لیکن ہوا یہ کہ اس ادارے میں کرپشن کا بازار گرم ہو گیا۔ 44بلین کے اسکینڈل سامنے آنے پر سب کی آنکھیں کھل گئیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے سوموٹو ایکشن لیا لیکن 10 سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد بھی کوئی حل نہیں نکل سکا۔ اور آج بھی ای او بی آئی کے پنشنرز رُل رہے ہیں۔ موجودہ حکومت نے تقریباً 2 سال گزرنے کے باوجود اپنے وعدے کو پورا نہیں کیا۔ آج بھی ای او بی آئی کے پنشنرز کو پنشن کے طور پر 8,500 روپے کی معمولی رقم ملتی ہے تاکہ وہ اپنے رہنے کے اخراجات کو پورا کر سکیں، جس میں خوراک، رہائش، کپڑے ، طبی اخراجات، یوٹیلیٹی بلز، سفر وغیرہ شامل ہیں لیکن افراط زر اور مہنگائی کی وجہ سے ان کا زندہ رہنا ناممکن ہو گیا ہے ۔EOBIکو اپنے آپریشنز اور مالیاتی تقسیم کے لیے حکومت سے کوئی مالی امداد نہیں ملتی اور اس طرح پنشن کی رقم میں اضافہ کرنے سے حکومت پر بوجھ نہیں بنے گا۔ پنشن کو حکومت وقت کے مروجہ کم از کم اجرت مساوی رقم بڑھا کر پنشنرز کو عزت اور وقار کے ساتھ زندگی گزارنے دی جائے۔تمام پنشنرز کو بھی حکومتی ہیلتھ کارڈ جاری کیے جائیں تاکہ انہیں ان کی زندگی کے اس مرحلے میں آسانی فراہم کی جاسکے سکے۔ ایپوا کی دونوں تجاویز پر حکومت کو سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک میں بے مثال مہنگائی کے موجودہ مشکل وقت میں ریاست مدینہ والی طرز عمل پر مساوات و انصاف کا عمل شروع ہو سکے۔