او آئی سی، کشمیراورفلسطین بھی شامل ہونے چاہئے تھے

334

41 سال کے بعد مسلم اُمہ ایک بارپھر پاکستانی دارالحکومت اسلام آبادمیں جمع ہوئی۔ گویہ اجتماع افغانستان کی مالی امداد اوراُس کو موجودہ معاشی بحران سے نکالنے کے لیے وزرائے خارجہ کااجلاس بلایاگیاتھا جس میں عالم اسلام کے 57 ممالک کے وزرائے خارجہ اورنائب وزرائے خارجہ تشریف لائے جبکہ یورپی یونین، اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ممالک امریکا، روس، چین، فرانس ، برطانیہ اوردیگر ممالک مدعوتھے۔ امریکا کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان تھامس ریسا بھی شامل تھے۔ اس طرح موجودہ حالات میں یہ ایک بھرپور اجتماع تھا جو پاکستان کی سرزمین پرمنعقد کیاگیا۔اس اجلاس سے یہ تاثر بھی ختم ہوگیا کہ دنیامیں پاکستان تنہاہے۔ پاکستان تنہانہیں بلکہ کسی نہ کسی حد تک وہ عالم اسلام کی قیادت کررہاہے اوراُس کے بلانے پر عالم اسلام کی قیادت ایک پلیٹ فارم پرجمع ہوئی ہے اور اپنے مسائل کا ادراک بھی رکھتی ہے اور اُس کے حل کے لیے کوشش بھی کرتی ہے۔ بہرحال پاکستان کی یہ ایک بڑی کامیابی ہے۔گوکہ اجلاس میں فوکس افغانستان ہی پر رہا اور اُسی کے لیے پروگرامات ترتیب دیے گئے۔ آئندہ کے حوالے سے لائحہ عمل بھی طے کیا گیا۔ اگرچہ عملاً موقع پر افغانستان کی عملی امداد نہ کی گئی، مستقبل کے حوالے سے وعدے وعیدہوئے، اُس کی بحالی کے لیے کچھ معاملات طے کیے گئے۔ امریکا پر زور دیا گیا کہ وہ افغانستان کے اثاثے بحال کرے وغیرہ وغیرہ۔ صرف سعودی عرب نے عملاً ایک ارب ریال کی مددکااعلان کیا لیکن اس اجلاسسے یہ اُمیدلگائی جاسکتی ہے کہ مستقبل میں افغانستان کی بحالی اور اس کو بحران سے نکالنے کے لیے عملی اقدامات اُٹھائے جائیں گے۔
بہرحال یہ ایک کاوش تھی جو ایک درست سمت اقدامات اُٹھائے گئے۔ایسے مواقع پر حضور ؐ کی تعلیمات بھی یہی ہیں کہ مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں۔ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو پوراجسم اس تکلیف کو محسوس کرتاہے۔ گوکہ یہ اسلامی تصور پوری طرح اُمہ کے اندراجاگرنہیں ہے اوراس پرپوری روح اورجذبہ کے ساتھ عمل درآمد نہیں ہوتا لیکن نفسانفسی کے اس عالم میں جب ممالک کوبھی اور لوگوں کو بھی اپنی اپنی پڑی ہوتی ہے اور ذاتی مفاد سے بالاترہوکر کوئی سوچنے والااورعمل کرنے والانہ ہے اس طرح کا کوئی بھی عمل غنیمت ہے۔ اُمیدکی جاسکتی ہے کہ آئندہ آگے جاکر اُمہ کے اندرایک ہونے کاشعور بھی پختہ ہوجائے گا اوروہ اُمہ کے مسائل کے حل کی طرف بھی بھرپور توجہ دے گی۔ موجودہ اجلاس بھی افغانستان کے معاشی بحران پرتھا۔ اسی پر غوروغوص ہوااور اُ س کے حل کے لیے بھی کوئی لائحہ عمل دیاگیالیکن اس کے علاوہ جو دیگر اہم ایشوز تھے، اُن کو نظرانداز کردیا گیا۔ اجلاس پر سکوت طاری رہا اوراُمہ نے اپنے دیگر اہم مسائل پر غوروغوص نہ کیااورنہ اُن کا حل پیش کیا۔ اس اعتبارسے بڑی مایوسی ہوئی ہے ۔ علامہ اقبال ؒ کے اس تصورکو بھی جھٹکا لگا جووہ اُمت کے بارے میں سوچتے تھے کہ:
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاک کاشغر
گوکہ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اپنے افتتاحی خطاب میں عالم اسلام کے ان مسائل کاذکر بھی کیاتھا، بالخصوص مسئلہ فلسطین اورمسئلہ کشمیرپر بات کی گئی تھی لیکن عالم اسلام کے اس اجتماعی پلیٹ فارم پرعالم اسلام کے ان اہم مسائل پرجن میں فلسطین کامسئلہ ، کشمیرکامسئلہ اوربرماکے مسلمانوں کا مسئلہ خود بھارت کے اندر رہنے والے کروڑوں مسلمانوں کا مسئلہ زیربحث نہ لایا اوراُن پر اجتماعی قراردادتک کانہ آنا ایک افسوسناک معاملہ ہے، جس سے ان ممالک کے مسلمانوں کو مایوسی ہوئی ہے۔ عالم اسلام کی قیادت ان سلگتے موضوعات پرغوروغوص کرتی تو بہتر تھا بلکہ یہ اُس کے فرائض میں شامل تھا بلکہ ان مسائل کا حل بھی پیش کرتی لیکن ہم سے یہ بھی نہیں ہوسکا کہ ہم ان مظلوم مسلمانوں کے حق میں کوئی قراردادہی لے آتے یا اس پر ظلم کرنے والے ممالک کو یہی کہہ دیتے کہ ظلم وستم بندکردو بصورت دیگر ہم تمہارے ساتھ تعلقات پر نظرثانی کریں گے۔ بہرحال ہم سے یہ بھی نہ ہوسکا کہ اتناہی کرلیتے یہ جو ہماری اپنی اسلام کی تعلیمات ہیں کہ مشرق ومغرب کامسلمان ایک ہے اگر مشرق کے مسلمان کو دُکھ پہنچتاہے توپوری اُمت اس کو محسوس کرے گی اوراُس کے تدارک کے لیے بھی کوشش کرے گی بالخصوص ان حالات میں جبکہ اقوام متحدہ کے اجلاس میں جنرل اسمبلی مسئلہ کشمیرکوایجنڈے پر لایاگیااور اس کے لیے متفقہ طور پر قراردادبھی منظور کی گئی جس میں کہاگیا کہ قوموں کوان کا بنیادی حق، یعنی حق خودارادیت دیناچاہیے اوراس میں کشمیر کا خصوصی ذکرکیا گیا۔ یہ عالمی سطح پر کشمیریوں کی بڑی فتح ہے۔ کاش اسی طرح کی قرارداد اوآئی سی کے اجلاس میں کشمیر یوں اورفلسطینیوں کے حق میں منظور کی جاتی لیکن بساآرزوکہ خاک شُد۔ مسلم اُمہ کے اجتماع میں اس پر بات نہ کرناکوئی قرارداد نہ لانا اپنی ذمے داریوں سے فرارہے اوراس اجلاس میں یہی ہوا جس سے کشمیر، فلسطین اور برماکے مسلمان مایوس ہوئے ہیں۔ بہرحال اُس کے باوجود یہ پاکستان اوردیگر چندممالک کی طرف سے اچھی کاؤش تھی کہ عالم اسلام کی قیادت ایک جگہ سرجوڑ کربیٹھی اوراُس نے عالم اسلام کے ایک ملک کومعاشی بحران سے نکالنے کے لیے انسانی بنیادوں پرامداد فراہم کرنے کا اوراُس کے مسائل کے حل کے لیے سوچا، منصبوبہ بندی کی اورآئندہ کا لائحہ عمل طے کیا۔ یہ ابتدا ہے۔ ہمیں اُمیدہے کہ آگے چل کر اُمہ اپنے دیگراور اہم مسائل کے حل کے لیے پھر اکٹھی ہوگی اوراُن مسائل کے حل کے لیے آئندہ کا لائحہ عمل اُمہ کو دے گی۔ ایک بات طے ہے کہ اس پورے اجتماع اور کاوش کا سہرا پاکستان کے سر ہے۔ اس اجلاس کی بنیاد پر پاکستان کی اہمیت بڑھ گئی، تنہائی کا تصوربھی ختم ہوگیا اوراُس کے عالم اسلام کے لیے قائدانہ کردار میں بھی اضافہ ہواہے۔ اس اثرورسوخ کواستعمال میں لاتے ہوئے آئندہ پاکستان مسلم ممالک کی قیادت سے گفت وشنید کے ذریعے عالم اسلام کی ان ایشوز پراُن کو قائل کرسکتاہے اورانہیں ان کے حل کے لیے ایک پلیٹ فارم پرجمع بھی کرسکتاہے۔
OOOO