پروفیسر غفور احمدؒ جیسی شخصیات پوری ملت کا سرمایہ اور اپنے دور ہی کے لیے نہیں، آنے والی نسلوں کے لیے بھی روشنی کا منبع ہوتی ہیں۔ پروفیسر صاحب نے پچاسی سال عمر پائی، اور جب سے ہم نے ان کو دیکھا انھیں ہرلمحہ اللہ کی اطاعت اور خلقِ خدا کی خدمت و خیر خواہی میں مصروف پایا۔ پروفیسر صاحب سے غائبانہ تعارف، روزنامہ ’’تسنیم‘‘لاہور کے ذریعے اس وقت ہوا تھا جب میں سکول کی ابتدائی کلاسوں میں پڑھتا تھا۔ 1958ء میں کراچی کے بلدیاتی انتخابات ہوئے جن کے نتائج تسنیم اخبار نے چھاپے۔ یاد پڑتا ہے کہ یہ انتخابات کئی مرحلوں میں بتدریج مکمل ہوئے تھے، اس میں جماعت اسلامی کے لوگوں کی کامیابی کی خبر ہمارے گھر میں بڑی خوشخبری کے مترادف تھی۔ مجھے یاد ہے کہ ان کونسلرز میں پروفیسر غفور احمد صاحب کا بھی نام تھا۔ دیگر کئی نام بھی لوحِ حافظہ پر موجود ہیں۔
یہ واقعہ کافی پرانا ہے مگر دو وجوہات سے ذہن میں محفوظ ہے۔ ایک تو یہ کہ میرے تایا جی، حافظ غلام محی الدین مرحوم و مغفور،نے مجلس میں یہ خبر پڑھ کر سنائی۔ ساتھ ہی متفکر انداز میں کہا کہ ایک جانب تو یہ عظیم کامیابی ہمارے لیے بڑی خوشی کی بات ہے مگر دوسری جانب یہ خدشات بھی ہیں کہ حکمرانوں کو پاکستان کے دارالحکومت (اس زمانے میں کراچی ہی درالحکومت تھا) میں جماعت اسلامی کی یہ کامیابی ہضم نہیں ہوسکے گی۔ معلوم نہیں شرپسند قوتیں کیا کیا سازشیں کریں گی۔ پھر عملاً ایسا ہی ہوا۔ کچھ عرصہ بعد ملک میں مارشل لالگ گیا۔ ایوب خان نے سیاست اور سیاسی جماعتوں کی بساط ہی لپیٹ کر رکھ دی۔ اسی مجلس میں پروفیسر صاحب کا نام ’’غفور احمد ‘‘بھی زیرِ بحث آیا کہ یہ عبدالغفور احمد ہونا چاہیے۔ مجھے کچھ زیادہ شعور نہیں تھا کہ نام کے متعلق یہ تبصرہ کیوں ہوا ہے، لیکن بزرگوں کے تبادلۂ خیال کا یہ پہلو بھی یادوں میں محفوظ ہے۔ بعد کے ادوار میں پروفیسر غفور صاحب کے نام کو دونوں طرح سے بولا، لکھا اور پڑھا جاتا تھا۔ غفور احمد بھی اور عبدالغفور احمد بھی مگر ان کا پیدائشی نام غفور احمد ہی تھا۔
پروفیسر صاحب جماعت اسلامی کا روشن ستارا اور جماعت کی قیادت میں ایک نہایت بیش قیمت ہیرا تھے۔ ان کے خاندان میں یوں تو سبھی جماعت کے ساتھ کم یا زیادہ وابستہ ہیں مگر ان سب میں سے ان کے ایک پوتے عزیزم حماد فوزی ہی تحریک کی اگلی صفوں میں آئے۔ وہ کراچی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم رہے اور اب جماعت میں سرگرمِ عمل ہیں۔ اللہ اس عزیز کو ثابت قدمی سے اپنے عظیم دادا جان کے نقوشِ پا پہ چلتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔
پروفیسر صاحب نے اپنے بچپن سے لے کر بڑھاپے تک ایک منظم، مربوط اور بھرپور زندگی گزاری۔
پروفیسر غفور صاحب سے براہ راست ذاتی تعارف 1972ء میں ہوا۔ 5-A ذیلدار پارک اچھرہ لاہور میں سردیوں کی ایک دوپہر کو وہ اسلام آباد سے تشریف لائے۔ مجھے صاحبزادہ محمد ابراہیم صاحب کے ساتھ ان سے ملنے کا شرف حاصل ہوا اور باہمی تعارف بھی ہوا۔ پروفیسر صاحب ان دنوں اسلام آباد میں قومی اسمبلی کا اجلاس اٹینڈ کرکے آئے تھے۔ مرکز جماعت میں کم و بیش تمام مرکزی ذمہ داران موجود تھے۔ پروفیسر صاحب نے مولانا کو ان کے کمرے میں جا کر اسمبلی کے حالات و واقعات کی بریفنگ دی۔ پروفیسر صاحب جماعت کے چار رکنی پارلیمانی گروپ کے لیڈر تھے۔ مجھے یاد ہے کہ پروفیسر صاحب مولانا سے ملاقات کے بعد باہر نکلے تو میں نے آگے بڑھ کر ان کا استقبال کیا اور اپنا نام بتایا تو میرا ہاتھ چھوڑنے سے پہلے اپنی دائمی مسکراہٹ اور شیرینی کے ساتھ مجھ سے پوچھا: ’’اچھا تو آپ آج کل کیا کر رہے ہیں؟‘‘ میں نے عرض کیا: ’’کوئی خاص کام تو نہیں کر رہا، البتہ گجرات میں جماعت اسلامی کے زیر اہتمام چھپنے والے ایک ہفت روزہ رسالے ’’الحدید‘‘ کی نگرانی کر رہا ہوں۔‘‘پھر پوچھا : ’’آپ نے کس مضمون میں ایم۔ اے کیا ہے؟‘‘ عرض کیا ’’میں نے عربی اور علومِ اسلامیہ میں ماسٹر کیا ہے۔‘‘ فرمانے لگے: ’’پی۔ ایچ۔ ڈی کرلو۔‘‘ میں نے کہا: ’’ارادہ تو ہے مگر پی۔ ایچ۔ ڈی کرنے کے بعد کیا فرق پڑے گا سوائے اس کے کہ نام کے ساتھ ڈاکٹر لگ جائے گا۔‘‘
پروفیسر صاحب نے مجھ سے فرمایا: ’’تمھارے متعلق میں نے کچھ خبریں پڑھی تھیں، جب تم جمعیت میں تھے۔‘‘ میں نے عرض کیا: ’’جمعیت کے دور میں میں کراچی میں آپ سے ملا تھا مگر اس وقت کوئی تعارف نہیں ہوسکا تھا۔‘‘ فرمایا: ’’کیوں تعارف نہیں کروایا تھا؟، تعارف تو کروانا چاہیے تھا۔‘‘ پروفیسر صاحب کے ہر فقرے اور لفظ میں عظمت کی جھلک تھی کہ ایک بڑا آدمی معمولی کارکنانِ جماعت کے ساتھ کس قدر محبت و اپنائیت کا اظہار کررہاتھا۔
پروفیسر صاحب میں بڑی خوبیاں تھیں۔ وہ مرنجاں مرنج تھے، اپنی بے پناہ صلاحیتوں اور قابلیت کے باوجود ان کے اندر انکسار کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ خوراک اتنی کم تھی کہ بعض اوقات تعجب ہوتا تھا کہ اس قدر بھاگ دوڑ کرنے اور فعّالیت کے ساتھ بلا تاخیر ہر اجلاس اور پروگرام میں پہنچنے والے یہ قائد اتنی کم خوراک کے ساتھ کیسے اتنی بھاگ دوڑ کرتے ہیں۔ بہرحال اپنی آخری بیماری سے قبل وہ ہر لحاظ سے تو انا اور فِٹ تھے۔ ان کے اندر بے پناہ قوتِ ارادی تھی۔ نام و نمود اور نمائش سے ہمیشہ مجتنب رہے۔ پنجاب کے دور دراز اضلاع میں بھی ان کے ساتھ جانے کا اتفاق ہوا، بارکونسلوں اور پریس کانفرنسوں سے خطاب کرتے تو ان کا تعارف کرواتے ہوئے جب مقامی احباب تعریف و تحسین کے الفاظ استعمال کرتے تو وہ انھیں منع کر دیتے اور فرماتے کہ پروگرام شروع کرائو۔
پروفیسروں اور دانشوروںسے گفتگو ہو یا وکلا و صحافیوں کے سامنے اظہارِ خیال، جلسۂ عام ہویا احتجاجی مظاہرہ، پروفیسر صاحب دس پندرہ منٹ میں اپنا پورا مافی الضمیر بیان کر دیتے اور متعلقہ موضوع پر کوئی تشنگی نہ رہنے دیتے۔ صحافیوں کے ہر سوال کا جواب بھی ان کی طرف سے نپاتلا اور نہایت جامع ہوتا تھا۔ شوریٰ کے اجلاسوں میں خاموشی کے ساتھ بیٹھتے اور اپنی باری پر اپنی رائے کا اظہار یوں کرتے کہ کوزے میں دریا بند کردینے کا محاورہ مجسم صورت میں حقیقت کا روپ دھارتا نظر آتا۔ قومی اسمبلی اور سینٹ میں اپنی رکنیت کے دوران انھوں نے جس بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا اس کا ہر شخص معترف ہے۔ ان کی تقاریر میں کوئی شور ہنگامہ نہیں ہوا کرتا تھا بلکہ اپنی عظیم شخصیت اور مرتبے کے عین مطابق وہ پر مغز نکات اٹھاتے اور ہر موقف مضبوط استدلال کے ساتھ پیش کرتے۔ 73ء کے دستور کی منظوری کے دور میں ڈاکٹر نذیر احمد تو شہید ہوچکے تھے اور جماعت کے صرف تین ارکان اسمبلی میں رہ گئے تھے، مگر اللہ کے فضل سے جماعت کا وزن اسمبلی کے اندر اور باہر ہر جگہ مسلّم تھا۔
OOO