پی ٹی آئی کے سربراہ اور ملک کے وزیرِ اعظم عمران خان کا کے پی کے کے بلدیاتی انتخابات میں اپنی ہار قبول کرنا اور پارٹی کے ذمے داروں کی غلطیوں اور کوتاہیوں پر برہم ہوکر ان کے خلاف کارروائی کرنے کا اعلان یقینا ایک ایسا قدم ہے جس کو اگر سراہا نہیں جائے تو زیادتی ہوگی۔ کے پی کے میں ایک بڑی شکست کا منہ دیکھنے کے بعد انہوں نے کہا ہے کہ ’’خیبر پختون خوا میں نالائقیوں کے سبب ہار، سفارش یا رشوت ستانی آئندہ برداشت نہیں ہوگی۔ بدھ کو وزیراعظم سے وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا محمود خان نے ملاقات کی جس میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، علی امین گنڈا پور سمیت دیگر اہم عہدیداران بھی شریک تھے۔ اس موقع پر وزیراعلیٰ نے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں ناکامی سے متعلق رپورٹ پیش کی، جس میں شکست کا ذمے دار گورنر کے پی کے، اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر سمیت 4 صوبائی وزرا اور 11 اراکین اسمبلی قرار دیے گئے جس پر پارٹی فیصلے کے مخالف جانے والے ارکان کو ابتدائی طور پر شوکاز نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ وزیراعظم نے بلدیاتی انتخابات میں شکست کے ذمے داروں کے خلاف کارروائی کی ہدایت کرتے ہوئے مزید مشاورت کے لیے کور کمیٹی کا اجلاس بلانے کا بھی فیصلہ کیا ہے‘‘۔
وزیرِ اعظم کے ارادے اور اچھے مستقبل کے لیے اقدامات کے فیصلے اپنی جگہ مستحسن ہی سہی لیکن جب چڑیاں کھیت چگ چکی ہوں تو یہ بات سانپ کے گزر جانے کے بعد لکیر پیٹنے والی جیسی ہی ہو کر رہ جاتی ہے یا پھر منیر نیازی کی نظم کا یہ مصرع بن جاتی ہے کہ ’’ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں‘‘۔ شاید ان کو یہ بات بھی پتا نہیں ہو کہ آئین نے ان کو جو 60 ماہ اقتدار کی کرسی پر براجمان ہونے کے لیے دیے تھے ان میں سے وہ 42 ماہ گزار چکے ہیں اور اب بصد مشکل ان کے پاس 18 ماہ کا عرصہ رہ گیا ہے، کیونکہ ان کو اکثر خبریں ٹی وی سے پتا چلتی ہیں یا پھر بی وی سے لیکن لگتا ہے اب انہوں نے یا تو دونوں جانب سے اپنے کان بند کر لیے ہیں یا پھر وہ دونوں کے صائب مشوروں کو اپنے خلاف ہونے والی تنقید قرار دیتے ہوئے اپنی اصلاح سے گریز کی پالیسی اپنا لی ہے۔
مخالفانہ رائے یا مخالفین کی جانب سے کی جانے والی باتیں دل کو چیر کر رکھ دیتی ہیں لیکن اس پر دل شکستہ ہونے کے بجائے اگر ٹھنڈے دل کے ساتھ غورو فکر سے کام لیا جائے تو، رائی برابر ہی سہی حکومتی امور کی کوئی نہ کوئی کمی یا کوتاہی کی جانب اشارے ہوا کرتی ہیں۔ بقول مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کہ افراد کی تند و تیز اور تلخ باتوں میں ہمارے لیے بڑی رہنمائی ہوتی ہے کیونکہ مخالفانہ باتیں ہماری کسی نہ کسی معمولی کوتاہیوں کو بتا رہی ہوتی ہیں جو ہم سہواً کر رہے ہوتے ہیں۔ اپوزیشن کا کام بے شک مخالفت ہی کرنا ہوتا ہے لیکن غور کیا جائے تو ان کی اس تلخی میں حکومت کا ایسا پہلو ضرور شامل ہوتا ہے جو اصلاح طلب ہو اور اگر نشاندہی کیے جانے والے کمزور پہلوؤں کر مزید بہتر کر لیا جائے تو طرز حکومت کو مزید بہتر کیا جا سکتا ہے لیکن ہوتا یہ ہے کہ انائیں راہوں کی رکاوٹ بن جاتی ہیں اور اپوزیشن کی باتیں مان لینا اپنے آپ کو کمزور کر لینا اور اپوزیشن کو مضبوط تر بنا لینے کے برابر سمجھ لیا جاتا ہے۔
پارلیمانی جمہوریت کا حسن تو یہ ہونا چاہیے کہ وہ اپوزیشن کی تعمیری سوچوں کے وزن کو محسوس کرے اور خاص طور سے اسمبلی کے فلور پر کسی بھی بل کے خلاف دی جانے والی آرا کو غیر اہم قرار نہ دے لیکن صدیوں سے سمائے آمرانہ ذہنوں پر ہر مخالف رائے دل و دماغ پر ہتھوڑوں کی طرح برسا کرتی ہے اور سادہ ہی سہی، اکثریت سے ہر بل منظور کرالینے کی رسم ٹوٹ کر نہیں دیتی۔ آج جن جن خامیوں اور کوتاہیوں کا اعتراف وزیرِ اعظم، ان کے وزرا، مشیران اور ذمے داران اپنے منہ سے کر رہے ہیں اور اپنی ہی پارٹی کے اہم ذمے داروں کے خلاف کارروائیاں کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، یہ سب باتیں وہ ہیں جن کو نہ صرف اپوزیشن والے کرتے رہے ہیں بلکہ خود ان کی پارٹی کے بے شمار مخلص افراد، ٹی وی اینکرز اور ایسے لوگ جو ان کی پارٹی کے لیے بے لوث کام کرتے رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے سب کی باتوں کو نہ صرف وزیر اعظم کی جانب سے بلکہ تمام وزرا و مشیران کی طرف سے در خورِ اعتناع بھی نہیں سمجھا گیا۔ اگر وزیرِ اعظم کے بیان کردہ ارادے کو سامنے رکھا جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’’آئندہ ایسی کوئی نالائقی اور کوتاہی کو برداشت نہیں کیا جائے گا‘‘ کا کیا مفہوم لیا جائے۔ گویا اب تک کی ساری رشوت ستانیاں، سفارشات، آپس کی کٹا چھنی، پارٹی کے اندر پارٹی اور ہر قسم کی کرپشن ریگولرائز ہو گئی؟۔ بات سیدھی سے یہ ہے کہ اختلاف رائے الگ بات ہے لیکن اس پر پارٹی کے اندر پارٹی بنانا، رشوت لینا، بے جا سفارش کرنا اور دیے گئے قانونی اختیارات سے تجاوز کرنا بہر صورت جرائم ہیں اور جرائم کی سزا پاکستان کے قانون میں صاف صاف درج ہے۔ جب ایسا ہے اور وزیر اعظم کے علم میں ہر پارٹی کے ذمے داروں کی ہر غیر اخلاقی و قانونی حرکات ہیں تو پھر ان کے خلاف قرار واقعی کارروائی کس بنیاد پر تاخیر کا شکار ہے۔ وزیرِاعظم سے یہی کہنا ہے کہ بہتری اسی میں ہے کہ قانونی کارروائی کا صرف اعلان نہیں کیا جائے بلکہ کی جائے، بصورت دیگر یہ بات عوام کی نظر میں لولی پاپ سے زیادہ اہمیت کی حامل ثابت نہیں ہوگی اور آنے والے ہر قسم کے الیکشن میں ان کی پارٹی کے لیے ایک بھیانک عفریت کی شکل اختیار کرتی جائے گی۔