لاہور (رپورٹ: حامد ریاض ڈوگر) پاکستان کے موجودہ حالات کے ذمے دار یہاں کے سیاستدان، سول بیورو کریسی، فوجی قیادت اور سب سے بڑھ کر حکمران ہیں جنہوں نے قائد اعظم کے فلاحی اسلامی ریاست کے تصور کی جانب کوئی قدم نہیں بڑھایا اور عملاً قیام پاکستان کے مقاصد، آئین اور قانون کی بالادستی کو تسلیم نہیں کیا‘ اب بھی شریعت اور خلافت کے تصور کے بغیر مسائل میں کمی ممکن نہیں‘ صرف جماعت اسلامی کو اقتدار میں لا کر ہی قوم کے حالات بہتر کیے جا سکتے ہیں کیونکہ کسی دوسری سیاسی جماعت کے پاس کوئی منشور ہے نہ ہی دیانتدار، امین اور باصلاحیت قیادت ہے۔ ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر لیاقت بلوچ، مجلس احرار پاکستان کے سیکرٹری جنرل عبدالطیف خالد چیمہ اور متعدد کتب کے مصنف ممتاز دانشور پروفیسر ڈاکٹر عبدالغنی فاروق نے روزنامہ ’’جسارت‘‘ کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’ہم 74 سال میں قائد اعظم کا پاکستان کیوں نہیں بنا سکے؟‘‘ لیاقت بلوچ نے بتایا کہ قائد اعظم محمد علی جناح کی بے مثال جدوجہد کے نتیجے میں پاکستان وجود میں آیا اور برصغیر کے مسلمانوں کو ایک آزاد ملک نصیب ہوا‘ ملک کے قیام کے مقاصد پر مبنی قرار داد مقاصد بھی منظور کی گئی اور آئین بھی بنایا گیا مگر بدقسمتی سے سیاستدانوں، سول بیورو کریسی اور فوجی قیادت نے عملاً قیام پاکستان کے مقاصد، آئین اور قانون کی بالادستی کو تسلیم نہیں کیا جس سے مرحلہ بہ مرحلہ ملک اور قوم زوال کی طرف چلتی چلی گئی حالانکہ پاکستان ہر طرح کی نعمتوں سے مالا مال ہے آج بھی نیتیں ٹھیک ہو جائیں‘ قائد اعظم اور علامہ اقبالؒ کی فکر سے بے وفائی نہ کی جائے تو پاکستان خوشحال، مستحکم اور باوقار ملک بن جائے گا اب تک قائد اعظم کا پاکستان نہ بن سکنے کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ جو لوگ اقتدار میں رہے اور جن کے اختیار میں ملک کی پالیسیاں رہیں انہوں نے عوام کی اصلاح اور فلاح کی کوئی کوشش نہیں کی بلکہ مفادات کے جھمیلوں میں ملک و ملت کا ستیاناس کر دیا گیا۔ عبداللطیف خالد چیمہ نے کہا کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے مسلمانان برصغیر کو جس فلاحی اسلامی ریاست کا تصور دیا تھا‘ ان کے بعد پاکستان سنبھالنے والوں نے بلا استثنا اس جانب نہ صرف یہ کوئی قدم نہیں اٹھایا بلکہ متضاد رویے اپنائے اور یہاں اسلامائزیشن کے خلاف فضا بنانے کے لیے کوشاں رہے جو قائد اعظم کی سوچ و فکر اور مملکت خداداد کے اساسی تصور کی روح کے خلاف تھا اس وقت بھی اگر ہم حالات کی بہتری اور ترقی و خوش حالی چاہتے ہیں تو اس کا واحد راستہ یہی ہے کہ جس مقصد کے لیے یہ ملک حاصل کیا گیا جس کی خاطر لاکھوں انسانی جانوں کی قربانی اور عزت مآب مائوں، بہنوں اور بیٹیوں کی عزت و آبرو قربان کی گئی، ہمیں اپنے مقصد حیات کی جانب لوٹنا ہوگا‘ قائد اعظم سے جب یہ سوال کیا گیا کہ پاکستان کا نظام مملکت کیسے چلایا جائے گا تو انہوں نے واضح الفاظ میں بتا دیا کہ ہمارا نظام 1400 برس قبل رسول اکرمؐ نے قرآن حکیم سے صورت میں ہمیں عطا کر دیا تھا، ہم پاکستان میں وہی نظام نافذ کریں گے‘ حقیقت یہی ہے کہ شریعت اور خلافت کے تصور کے بغیر نہ صرف یہ کہ ہمارے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ معاملہ زیادہ الجھتا چلا جائے گا۔ ڈاکٹر عبدالغنی فاروق نے کہا کہ 74 برس میں قائد اعظم کا پاکستان نہ بن سکنے کے سب سے زیادہ ذمہ دار یہاں اقتدار میں رہنے والے حکمران ہیں‘ جب آغاز ہی میں ملک غلام محمد جیسے لوگ ملک کے حکمران بن گئے تو قائد اعظم کا پاکستان کیسے بن سکتا تھا اور یہاں اسلامی نظام کیسے نافذ ہو سکتا ہے‘ مرحوم ضیا الحق کے سوا کسی بھی حکمران نے پاکستان میں اسلامائزیشن کی کوئی کوشش نہیں کی‘ اس لیے قائد اعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کے خواب کو تعبیر نہ مل سکی۔ علامہ اقبالؒ نے فرمایا تھا کہ لا کہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب و جگر، ہمیں ملک کا نظام قرآن و سنت پر استوار کرنا ہو گا‘ میں کسی کو خوش کرنے کے لیے نہیں کہہ رہا بلکہ مجھے کوئی شبہ نہیں بلکہ یقین ہے کہ جب تک جماعت اسلامی اقتدار میں نہیں آئے گی اس وقت تک پاکستان کی روح بھٹکتی رہے گی‘ اللہ تعالیٰ قوم کو ہدایت دے‘ وہ خدا کا خوف کرے‘ جماعت اسلامی کو مخلوط نہیں‘ کلی اقتدار دے‘ خواہ 2 سال کی آزمائشی مدت ہی کے لیے دیا جائے‘ مجھے یقین ہے کہ ساری خرابیوں کے باوجود حالات تیزی سے بہتری کی طرف گامزن ہوں گے‘ کراچی میں عبدالستار افغانی اور نعمت اللہ خاں کی شاندار کارکردگی اس کا ثبوت ہے، یہ جماعت اسلامی کی صلاحیتوں اور کارکردگی کی 2 چھوٹی مثالیں ہیں‘خیبر پختونخوا میں بھی جماعت اسلامی کے وزرا کی کارکردگی مثالی رہی تاہم کوئی بڑی تبدیلی اس لیے نہ آ سکی کہ وہاں جماعت اسلامی مخلوط حکومت کا حصہ تھی‘جماعت اسلامی کے سوا کسی سیاسی جماعت کے پاس کوئی منشور ہے نہ دیانتدار، امین اور باصلاحیت و باکردار قیادت ہے‘ اس لیے پاکستان کے مسائل کا واحد حل جماعت اسلامی کی حکومت ہے۔