قرآن مجید میں عدت کی مختلف صورتوں کا ذکر ہے۔ کوئی عورت بیوہ ہوجائے تو اس کی عدت چار ماہ دس دن بیان کی گئی ہے۔(البقرہ: ) اور کوئی عورت حمل سے ہو تو اس کی عدت اس وقت تک ہے جب تک ولادت نہ ہوجائے۔ قرآن مجید میں ہے:
’’اور حاملہ عورتوں کی عدت کی حد یہ ہے کہ ان کا وضع حمل ہوجائے‘‘۔ (الطلاق: 4)
قرآن مجید کے اس صریح حکم کی بنا پر تمام علما وفقہا کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حاملہ عورت کی عدت وضع حمل تک ہے، لیکن ان کے درمیان اس امر میں اختلاف ہوگیا ہے کہ اگر عدت کی دو صورتیں جمع ہوجائیں، یعنی کوئی عورت بیوہ ہوجائے اور وہ حاملہ بھی ہو تو وہ کون سی عدت گزارے گی؟
ابن ابی لیلیؒ اور سحنونؒ کہتے ہیں اور صحابہ میں سے سیدنا علیؓ اور (ایک روایت کے مطابق) ابن عباسؓ کی بھی یہی رائے ہے اور شیعہ امامیہ کا بھی یہی مسلک ہے کہ بیوہ حاملہ کی عدت ’آخر الاجلین‘ ہے، یعنی دونوں عدتوں میں سے جو طویل ہو وہی اس کی عدت ہوگی۔ مثلا اگر بچہ چار ماہ دس دن سے پہلے پیدا ہوجائے تو اسے چار ماہ دس دن تک عدت گزارنی ہوگی اور اگر اس مدت میں اس کے یہاں ولادت نہیں ہوئی تو اس کی عدت اس وقت پوری ہوگی جب وضع حمل ہوجائے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ بیوہ کی جو عدت (چار ماہ دس دن) بیان کی گئی ہے اس میں حاملہ اور غیر حاملہ دونوں قسم کی عورتیں شامل ہیں اور وضع حمل کی عدت کا اطلاق بیوہ عورت پر بھی ہوتا ہے۔ اس لیے زیادہ مدت والی عدت کو نافذ کرنے سے دونوں آیتوں میں مذکور احکام پر عمل ہوجائے گا۔
جمہور فقہا اور صحابہ کرامؓ میں سے حضرات عمربن الخطاب، عبداللہ بن مسعود، زید بن ثابت، عبداللہ بن عمر اور ابوہریرہؓ کی رائے ہے کہ حاملہ عورت کی عدت کی آخری حد وضعِ حمل ہے۔ اس کے یہاں ولادت ہوتے ہی اس کی عدت پوری ہوجائے گی، خواہ یہ ولادت شوہر کی وفات کے تھوڑی دیر کے بعد ہی ہوجائے، یا حمل چار ماہ دس دن سے زیادہ عرصے جاری رہے، بہر حال وضع حمل ہونے کے ساتھ اس کی عدت پوری ہوگی۔
ان کی دلیل یہ ہے کہ سورہ طلاق کی آیت 4 میں حاملہ عورتوں کی جو عدت بیان کی گئی ہے وہ مطلقہ اور بیوہ سب کو شامل ہے۔ سورہ بقرہ میں بیوہ کی عدت مذکور ہے اور سورہ طلاق میں حاملہ کی عدت کا بیان ہے۔ سورہ طلاق سورہ بقرہ کے بعد نازل ہوئی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعد کے حکم نے پہلے حکم کو غیر حاملہ بیوہ کے لیے خاص کردیا ہے۔
جمہور فقہا کی مضبوط دلیل عہد نبوی میں پیش آنے والا ایک واقعہ ہے۔ قبیلہ اسلم کی ایک خاتون سیدہ سبیعہ بنت حارثؓ جو سیدنا سعد بن خولہؓ کی بیوی تھیں، حجۃ الوداع کے موقع پر حالتِ حمل میں بیوہ ہوگئیں۔ شوہر کی وفات کے چند روز بعد ان کے یہاں ولادت ہوئی۔ انھوں نے دوسرے نکاح کا ارادہ کیا تو ایک صاحب نے کہا کہ تم چار ماہ دس دن سے قبل نکاح نہیں کرسکتیں۔ وہ رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور آپ سے اس معاملے میں فتویٰ پوچھا۔ آپ نے فرمایا کہ تم وضع حمل ہوتے ہی حلال ہوگئی ہو۔ اب چاہو تو دوسرا نکاح کرسکتی ہو۔ (بخاری، مسلم)
یہ فقہا یہ بھی کہتے ہیں کہ حائضہ عورت کے سلسلے میں عدت کا مقصد برأت رحم کا علم ہے، یعنی عورت حمل سے نہیں ہے۔ وضع حمل سے یہ مقصد پورا ہوجاتا ہے۔
وضع حمل کے ذریعے سے عدت پوری ہوجانے پر جمہور فقہا کا اتفاق اس صورت میں ہے جب عورت کے یہاں مکمل ولادت ہوئی ہو۔ لیکن اگر اسقاطِ حمل ہو اور مردہ بچے کے انسانی نقوش نمایاں نہ ہوئے ہوں تو اس صورت میں احناف کے نزدیک وضع حمل سے عدت مکمل نہ ہوگی۔ شوافع اور حنابلہ سے دونوں طرح کے اقوال منقول ہیں، یعنی ایک قول کے مطابق چوں کہ وضع حمل سے برأت رحم کا اثبات ہوگیا ہے اس لیے عدت کو مکمل سمجھا جائے گا اور دوسرے قول کے مطابق عدت مکمل نہیں ہوگی۔ مالکیہ کے نزدیک اسقاط کے نتیجے میں مردہ پیدا ہونے والے بچے کے انسانی نقوش نمایاں ہوئے ہوں یا نہ ہوئے ہوں، دونوں صورتوں میں برأتِ رحم کی بنا پر عدت مکمل سمجھی جائے گی۔