امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے انکشاف کیا ہے کہ سعودی عرب اب چین کی مدد سے اپنے بیلسٹک میزائلوں کی تیاری پر کام کررہا ہے۔ امریکی خفیہ ایجنسیوں کی اس رپورٹ کی خبر امریکی ٹی وی نیٹ ورک ’سی این این‘ پر نشر کی گئی تھی۔ذرائع کے مطابق وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کمیٹی سمیت متعدد انٹیلی جنس ایجنسیوں کے امریکی حکام کو حالیہ مہینوں میں خفیہ انٹیلی جنس پر بریفنگ دی گئی ہے جس میں چین اور سعودی عرب کے درمیان حساس بیلسٹک میزائل ٹیکنالوجی کی بڑے پیمانے پر منتقلی کا انکشاف ہوا ہے۔’سی این این‘ کی جانب سے حاصل کردہ نئی سیٹلائٹ امیجز میں اشارہ ملتا ہے کہ سعودی عرب پہلے ہی چینی مدد سے قائم کی گئی جگہ پر بیلسٹک میزائل تیار کر رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق جنہوں نے تصاویر اور ذرائع کا تجزیہ کیا انہوں نے تصدیق کی کہ وہ تازہ ترین امریکی انٹیلی جنس تشخیص کے مطابق پیش رفت کی عکاسی کرتے ہیں۔نئی تصاویر سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ سعودی عرب اب اس جگہ پر بیلسٹک میزائل تیار کر رہا ہے۔ مڈل بیری انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل اسٹڈیز کے اور اسلحہ کے امور کے ماہر پروفیسر جیفری لیوس کے مطابق اہم ثبوت یہ ہے کہ یہ سہولت بیلسٹک میزائل کی تیاری سے ٹھوس ایندھن کی باقیات کو ٹھکانے لگانے کے لیے ایک “آتشیں گڑھا”قائم کیا گیا ہے۔انہوں نے مزید وضاحت کی کہ کاسٹ شدہ راکٹ انجن پروپیلنٹ کی باقیات پیدا کرتے ہیں جو ایک دھماکہ خیز خطرہ ہے۔ ٹھوس پروپیلنٹ کی پیداواری سہولیات میں اکثر آگ کے گڑھے ہوتے ہیں جہاں بقایا ایندھن کو آگ کے ذریعے ضائع کیا جا سکتا ہے۔اس کے علاوہ امریکی دانشور نے کہا کہ زیر بحث تنصیب چینی مدد سے تعمیر کی گئی تھی اور انٹیلی جنس کے نئے جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ سعودی عرب نے حال ہی میں چین سے حساس بیلسٹک میزائل ٹیکنالوجی خریدی ہے۔ امکان ہے کہ وہاں بنائے گئے میزائل چینی ڈیزائن کے ہیں۔لیوس نے کہا کہ اس بات کے بھی شواہد موجود ہیں کہ سعودی عرب نے حالیہ برسوں میں اپنے بیلسٹک میزائل پروگرام کو تیار کرنے میں مدد کے لیے دوسرے ممالک کی طرف رجوع کیا ہیجس سے یہ طے کرنا مشکل ہو گیا ہے کہ مملکت اب اس سہولت پر کون سا ہتھیاروں کا نظام بنا رہی ہے۔