سانحہ سیالکوٹ۔ پس منظر، پیش منظر (آخری حصہ)

462

آپ بھی کہیں گے کہ کیا ماضی کے قصے لے کر بیٹھ گئے ہو! چلیے حال کی بات کرتے ہیں۔ ناظم جوکھیو کے خون کے دھبے ابھی خشک نہیں ہوئے کیونکہ اس نے پرندوں کے شکار کی ویڈیو اپ لوڈ کی تھی کہ جن کا شکار ممنوع ہے جبکہ طاقتور کے لیے آئین و قانون، پولیس وعدالت ہر چیز حلال اور جائز ہے، جو طاقتور غیر ملکی اور طاقتور میزبان کے ساتھ مل کر کھیل رہے تھے اور ہمارے نظام عدالت و انصاف کا معجزہ دیکھیے کہ انصاف کے طلب گار یعنی مقتول کے ورثا ہی اپنے دعوے سے دستبردار ہوگئے۔ سانحہ ماڈل ٹائون لاہور کے شہداء اور ان کے لواحقین بالآخر کہا گئے؟ جبکہ ان کے قتل کا حکم صادر کرنے والے شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ پارلیمنٹ کی زینت بنے اور دستور پاکستان اور قانون کی حکمرانی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا، ان دونوں شخصیات کے دم سے ماشاء اللہ۔ پاکستان کے آئین کو بازیچہ اطفال بنانے والے اور اسے اپنے گھڑے کی مچھلی بنائے رکھنے والی عدلیہ کی تاریخ بھی روز روشن کی طرح آپ کے سامنے ہے۔ ہر مقتدر کہ جس نے دستور کا مذاق بنایا۔ جنرل ایوب سے لے کر آج تک ہماری عدلیہ نے اسے قانونی جواز فراہم کیا۔ صرف چند لوگ ہیں کہ جنہوں نے اس عرصے میں قومی غیرت و حمیت کو ثبوت دیا اور طاقتور حلقوں کی طاقت و قوت اور جبر و استبداد کا انداز ہ لگانا ہو تو آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جس عدالت نے جنرل مشرف کو آئین و قانون توڑنے کے الزام میں سزا سنائی، ہماری اسٹیبلشمنٹ نے اس عدالت کا نام و نشان تک مٹادیا۔ ملک کا پہلا وزیر اعظم قتل کردیا گیا اور نتیجہ آج تک ندارد! پاکستان پر حکومت کرنے والی چاروں جماعتیں، آرمی، ن لیگ، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کا ٹریک ریکارڈ آپ کے سامنے ہے۔ سیاست میں ہارس ٹریڈنگ کا آغاز شریف برادران کا کارنامہ ہے۔ جبکہ جہانگیر ترین اور عمران خان نے اس فن کو اس کی معراج تک پہنچادیا اور اسی طرح صحافت کے میدان میں بھی لفافہ کلچر کو متعارف کروانے والے شریف برادران ہی ہیں۔ البتہ اس فن کو بھی اوج کمال تک پہنچانے میں یہ سب برابر کے شریک ہیں۔ 2018ء کے الیکشن میں آر ٹی ایس کا بیٹھ جانا اور پھر ڈسکہ الیکشن میں پورے عملہ کا اغوا اس بات کو منہ بولتا ثبوت ہے کہ یہ پور اطبقہ اس معاملے میں ایک دوسرے سے بڑھ کر ہیں۔ کورونا کے دوران 40ارب روپے کا گھپلا چیخ چیخ کر ہماری امانت و دیانت کی گواہی دے رہا ہے جبکہ عدالت عالیہ ہمیں صادق و امین کا سرٹیفکیٹ جاری کرچکی ہے۔
قارئین کرام! یہ ساری تمہید اور تفصیل بیان اس لیے کی ہے کہ عربی زبان کا ایک مقولہ ہے۔ ’’الناس علی دین ملوکھم‘‘، کہ لوگ (عوام) اپنے حکمرانوں کے دین پر ہی ہوتے ہیں۔ لہٰذا جو بوئیں گے وہی کاٹیں گے۔ جیسی کرنی ویسی بھرنی۔ یعنی جو نفرت آپ نے پچھلے پچھتر سال میں بوئی جو زبان آپ نے اپنے کارکن کو سکھائی، آج وہ نسل پوری تیار ہے کہ جس کو آپ نے اپنے مذموم مقاصد کے لیے تیار کیا، جس کو آپ نے اپنے خون پسینے سے سینچا، آج وہ کھیتی لہلہا رہی ہے اور برگ و بار دے رہی ہے تو آپ برا محسوس کرنے لگے ہیں۔ جبکہ آثار وعواقب اس بات کا پتا دے رہے ہیں کہ ابھی تک اتنے حادثات ہونے کے باوجود بھی آپ نے کچھ نہیں سیکھا۔ آئیے دیکھیں تاریخ کیا کہتی ہے۔
قبیلہ بنو مخزوم کی ایک عورت تھی کہ جو لوگوں کا سامان بہانہ بناکر مستعار لیتی اور پھر اسے دینے سے انکار کردیتی۔ ایک مرتبہ اس نے زیور مانگ لیا اور پھر واپس کرنے سے انکار کردیا۔ تفتیش پر سامان اس کے پاس پایا گیا۔ چنانچہ اس کا معاملہ بارگاہ رسالت تک پہنچا تو آپؐ نے حد کو نافذ کرنے کا حکم جاری کردیا۔ وہ عورت شرف و منزلت والی تھی اور اس کا تعلق قریش کے ایک معزز گھرانے سے تھا۔ اس ناتے قریش اس عورت پر ہونے والے فیصلہ کے متعلق فکر مند ہوئے۔ انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اس معاملے میں کسی کو نبیؐ تک رسائی کا ذریعہ بنائیں تاکہ وہ آپؐ سے سفارش کرسکے۔ انہوں نے اسامہ بن زیدؓ سے زیادہ مناسب کسی کو نہیں پایا کیونکہ اللہ کے نبیؐ ان سے بہت پیار کرتے تھے۔ چنانچہ اسامہ بن زیدؓ نے آپؐ سے اس بارے گفتگو کی تو آپؐ غصے میں آگئے اور اس بات پر اسامہ کی تنکیر کرتے ہوئے فرمایا تم اللہ کی حدود میں سے ایک حد کے سلسلے میں مجھ سے سفارش کرتے ہوئے۔ پھر آپؐ نے لوگوں کے بیچ کھڑے ہو کر خطبہ دیا تاکہ اس قسم کی سفارش کے نقصانات کو لوگوں پر واضح کیا جاسکے کہ جس کی وجہ سے اللہ کی حدود کے نفاذ میں رکاوٹ پیدا ہو اور چونکہ موضوع ان میں سے بہت سارے لوگوں کے لیے اہمیت کا حامل تھا تو آپؐ نے لوگوں کو خبردار کیا کہ تم سے پہلے لوگوں کی ہلاکت کی وجہ دینی اور دنیاوی اعتبار سے یہی تھی کہ وہ اللہ کی حدود کا نفاذ کمزور اور فقیر لوگوں پر کرتے تھے جبکہ مالدار اور طاقتور لوگوں کو چھوڑ دیتے تھے اس ناتے ان کے درمیان انارکی پھیل جاتی اور شرو فساد پھوٹ پڑتے اور وہ اللہ کے غضب اور اس کے عذاب کے مستحق بن جاتے ہیں۔ پھر آپؐ نے قسم کھائی کہ آپ صادق و مصدوق ہیں اور اگر یہ کام دونوں جہاں کی عورتوں کی سردار آپؐ کی بیٹی سیدہ فاطمۃ الزہراء سے بھی سرزد ہوا ہوتا تو، (اللہ انہیں محفوظ رکھے۔ آمین) آپؐ ان پر بھی اللہ کا حکم نافذ کرتے۔
تو جناب عالی! کورونا کے چالیس ارب کھانے والوں کی فہرست شائع کرو اور ان کے اموال کو ضبط کرکے اسے قومی خزانے میں جمع کرو اور ان کو قرار واقعی سزا دو۔ دنیا بھر سے ملنے والے تحائف کی فہرست شائع کرو تاکہ تمہاری امانت و دیانت کی خوشبو بنی گالہ کی اونچی دیواروں سے باہر بھی جاسکے۔ اگر آڈیو اور ویڈیو ریکارڈنگ سے فرصت ہو تو ذرا دیکھ لو کہ قومیں سربلند کیسے ہوتی ہیں اور پستی کی اتھاہ گہرائیوں میں کیسے گرتی ہیں۔ لہٰذا آپ نے نفرت، تعصب، علاقائیت اور اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے جس طرح لوگوں کو مذہبی منافرت سکھائی تو آج اس کا پھل آپ اپنے ہاتھوں سے کاٹ رہے ہیں اور اس پر شرمندہ ہونے کے بجائے وہی پرانے مذمتی بیانات، وہی پرانے جال، وہی شکاری وہی قانون اور مکڑی کا کمزور جالا اس بات کی نشاندہی کررہا ہے کہ
یہ فصل امیدوں کی ہمدم!
اس بار بھی غارت جائے گی
سب محنت صبحوں شاموں کی
اب کے بھی اکارت جائے گی
کھیتی کے کونوں کھدروں میں
پھر اپنے لہو کی کھاد بھرو
پھر مٹی سینچو اشکوں سے
پھر اگلی رت کی فکر کرو
پھر اگلی رت کی فکر کرو
جب پھر ایک بار اجڑنا ہے
اک فصل پکی تو پھر پایا
جب تک تو یہ کچھ کرنا ہے
اور ہاں اگر تم چاہتے ہو کہ غلیظ اور گندے نظام سے چھٹکارا ملے تو ان کی روشن پیشانیوں والوں کو پہچانو، امانت و دیانت کے مجسم پیکروں کی تلاش کرو کہ ملک و قوم سے وفا کی خاطر جو آج بھی سولیوں پر لٹک رہے ہیں۔ جن کا ماضی اور حال اس بات کا گواہ ہے کہ اگر تم نے کوئی بھی امانت ان کے سپرد کی تو اس کا حق ادا کردیا جو آج بھی تمہارے حقوق کے لیے گوادر سے لے کر چترال تک برسر پیکار ہیں اور جن کا نام جماعت اسلامی ہے۔ جنہوں نے تھر کے ریگستانوں میں وفا و محبت کے پھول کھلائے، جنہوں نے سیلاب و کورونا کی تباہ کاریوں میں وہ کچھ کردیا جو شاید ایک حکومت بھی نہ کرسکی۔ ان کو جب اور جب اور جہاں اور جہاں موقع ملا انہوں نے تاریخ رقم کی اور شاید اب وہ تاریخی موقع آن پہنچا ہے کہ جب گوادر کے ساحلوں سے لے کر افغانستان کی برف پوش چوٹیوں سے یہ پیغام قریہ قریہ، کوچہ کوچہ، نگر نگر پھیل چکا ہے کہ اب کی بار ہم تیار!!