لاہور(نمائندہ جسارت)سانحہ ساہیوال میں ملوث پولیس افسران کیسے بری ہوئے عدالت میں بھانڈا پھوٹ گیا، ملزمان کی بریت کے خلاف پنجاب حکومت کی اپیل پر لاہور ہائی کورٹ نے مدعی جلیل کو جھوٹی گواہی دینے اور گواہوں کو حقائق چھپانے پر نوٹس جاری کردیا۔ جسٹس چودھری عبدالعزیز کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے پنجاب حکومت کی اپیل پر سماعت کی۔ کیس کے مدعی جلیل اور گواہان عدالت میں پیش ہوئے۔ لاہور ہائی کورٹ نے مدعی جلیل کو ٹرائل کورٹ میں جھوٹی گواہی دینے اور دیگر گواہوں کو بھی حقائق چھپانے پر نوٹس جاری کردیا۔جسٹس عبدالعزیز نے مدعی مقدمہ سے کہا کہ پہلے آپ نے ملک میں معاملہ سر پر اٹھایا ہوا تھا بعد میں ٹرائل کورٹ میں ملزمان کو پہچاننے سے انکار کردیا۔ عدالت نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ جھوٹی شہادت دینے پر کیوں نہ تمہیں نوٹس دیں۔مدعی مقدمہ نے عدالت سے اجازت طلب کی کہ میں وکیل کرنا چاہتا
ہوں جس پرعدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وکیل بعد میں کرنا پہلے یہ بتاؤ کہ عدالت میں یہ کیسے کہا کہ ہم کیس کے متعلق کچھ نہیں جانتے، جھوٹی شہادت آپ دیں اور گندگیاں عدالت پر ڈالیں۔ موقع پر موجود ایک گواہ وسیم عدالت میں پیش ہوا۔ گواہ وسیم نے عدالت کو بتایا کہ مجھے ڈی پی او ساہیوال نے یہ بیان دینے کے لیے کہا تھا۔ عدالت نے ڈی پی او کیپٹن ریٹائرڈ محمد علی ضیا کو نوٹس جاری کردیا۔عدالت نے ریمارکس دیے کہ واقعہ کا دوسرا رخ بعد میں آتا ہے پہلے ملک کو پوری دنیا میں بدنام کر دیتے ہیں، برآمدگی کے گواہوں نے بھی کہہ دیا کہ ہمیں کچھ نہیں معلوم۔ جسٹس عبدالعزیزنے ریمارکس دیے کہ گواہ ٹی وی پر جو کہانیاں سناتے تھے ہم انہیں دیکھ کر روتے تھے، بعد میں سب گواہ کہتے ہیں کہ ہم کچھ نہیں جانتے۔ پراسیکیوٹر نے کہا کہ گواہوں کے منحرف ہونے پر ملزمان بری ہوئے۔ دریں اثنا 2رکنی بینچ نے کیس کی مزید سماعت 17 جنوری تک ملتوی کردی۔