محنت اور ایمان داری سب کی ذمے داری

451

اے ابن آدم کسی بھی قوم کی تقدیر بدلنے کا واحد حل یہ ہے کہ اس کو سوچنے پر مجبور کیا جائے اور اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ انفرادی اور اجتماعی سوچ کو بیدار کیا جائے۔ بغیر کسی مصلحت کے قوم کے سامنے حقائق لانے چاہئیں، ہر واقعے کے ذمے داران کا تعین کیا جائے اور ان کو قانون کے مطابق کڑی سزائیں دی جائیں۔ آج ملک میں جو کچھ ہورہا ہے اُس سے ملک میں تباہی ہوتی نظر آرہی ہے۔ قوم کے وسائل پر غیر ملکی آقائوں کا راج ہے۔ ملک کو اگر ترقی دینی ہے تو محنت اور ایمانداری کے ساتھ ہی ممکن ہے۔ انسانیت اور فرقہ واریت کا جڑ سے خاتمہ ہونا چاہیے۔ ہر ادارے کے سربراہ کو اپنا مکمل تجزیہ کرنا چاہیے۔ جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ سوچ کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ اداروں کو آئین کے مطابق کام کرنے کا حق دیا جائے۔ عدالتوں کے فیصلے بدلنے چاہئیں۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ملک کی تعمیر و ترقی میں جب تک سارے ادارے اور افراد اپنا اپنا کردار ادا نہیں کرتے اس وقت تک ملک کی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ خواب دیکھنے پر کوئی پابندی تو نہیں ہے مگر خواب میں ہم یہ دیکھیں کے ہمارا ملک دن دگنی رات چوگنی ترقی کرے، ہر شخص اور ہر ادارہ دن رات محنت سے کام کررہا ہو۔ تھیوری اور عمل میں بڑا فرق ہوتا ہے، عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی۔ ابھی تو شاید ہم اس زندگی کو جہنم بنانا چاہتے ہیں کیوں کہ جنت تو اگلے جہان میں مل ہی جانی ہے اور وہ جنت بھی ہمیں اپنے باپ آدمؑ کے ورثے میں ملی ہے۔
آج بڑے سے لے کر چھوٹا سب ملک و قوم کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں۔ ایک چھوٹے سے چینل کا اینکر اس طرح سے بات کرتا ہے کہ اس سے زیادہ سمجھدار اور کوئی نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ریاست کو یہ ٹی وی اینکر ہی چلا رہے ہیں، بس اپنی ریٹنگ کے چکر میں عوام کو بیوقوف بناتے رہتے ہیں۔ بیچارے عوام یہ سمجھتے ہیں کہ یہ جو کہہ رہے ہیں وہ بالکل ٹھیک ہے، جب کہ ہمارے ملک میں سیاست عبادت کے طور پر نہیں بلکہ ایک کھیل سمجھا جاتا ہے، بس دھکا دے کر آگے بڑھتے جائو۔ دوسری جانب سرکاری اداروں کی کارکردگی بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ یہ عوام کے خادم آج زمینی خدا بن کر بیٹھ گئے ہیں۔
9 یا 10 دسمبر کو 245 ویں کورکمانڈرز کانفرنس میں پاک فوج کی قیادت نے متفقہ طور پر قرار دیا ہے کہ آئندہ کے لیے تشدد پسند عناصر کے بارے میں تحمل کا مظاہرہ نہیں کیا جائے۔ آئی ایس آئی کے مطابق دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف زیروٹالرنس کے عزم کا اظہار کیا گیا۔ یہ امر اطمینان کا باعث ہے کہ ملکی تاریخ میں شاید پہلی بار انتہا پسندانہ نظریات کے حامل عناصر کے خلاف ملک میں سول اور عسکری قیادت سمیت تمام مکاتب فکر مجموعی اور انفرادی طور پر یکساں سوچ کے اظہار کے وقت اکٹھے نظر آئے ہیں اور ہمارے تمام مسالک اور مذاہب کے علمائے کرام بھی انتہا پسندی کے خلاف یوم مذمت مناچکے ہیں۔ اس سے دنیا بھر کے ممالک میں ایک مثبت پیغام جائے گا کہ اسلام برداشت اور رواداری کا مذہب ہے نہ کہ انتہا پسندی اور عدم برداشت کا۔ لیکن جیسا کہ ایک معلوم حقیقت یہ بھی ہے کہ جو کام بہت عرصے پہلے سرانجام دیے جانے کے لائق تھے وہ بوجوہ موخر ہوتے چلے گئے لیکن ثانوی حیثیت یا درجہ دوم، سوم، چہارم کی فہرست اور صنف کے کام ترجیحی بنیادوں پر کیے جاتے رہے اگر بہت دور نہ بھی جائیں تو چند سال پیش تر سیالکوٹ ہی میں دو سگے بھائی جن میں ایک حافظ قرآن بھی تھا ایسے ہی قانون شکن اور انتہا پسند عناصر کے ہاتھوں رزق خاک بن گئے تھے۔ اس وقت ہی انتہا پسندوں کے اس جتھے کو زیرو ٹالرنس کے فلسفے کے تحت قرار واقعی سزائیں مل چکی ہوتیں، انہیں کیفر کردار تک پہنچادیا ہوتا تو شاید دوبارہ سانحہ سیالکوٹ رونما نہ ہوا ہوتا۔ سری لنکن شہری پرنتھا کمارا کی جس طرح سے ہلاکت ہوئی اُس سے پاکستان کی ساکھ متاثر ہوئی، پاکستان کی یہ تاریخ ہے کہ اس نے ہمیشہ سری لنکا کا ساتھ دیا اور اس واقعے پر وزیراعظم عمران خان نے خود فون کرکے معذرت بھی کی، جس پر سری لنکا کی حکومت نے پاکستان کی موجودہ حکومت کا شکریہ ادا کیا۔ یہ طے پایا کہ پاکستان مستقبل میں ایسے واقعات کو روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے گا۔ کورکمانڈرز کانفرنس میں بھی اس واقعے پر گفتگو کے ساتھ اس طرح کے واقعات کو کنٹرول کرنے کا عزم کیا گیا، تاریخ میں اگر سول اور عسکری قائدین کو امر ہونا ہے تو کانفرنس میں ہونے والے فیصلوں اور عزائم پر عملدرآمد یقینی بنائیں۔ اب بات کرتا ہوں حکومت کے ایک اقدام کی جس سے ملک کی غریب عوام کو صحت کی مفت سہولت فراہم کی جانے والی ہے۔ جی ہاں غریب عوام کے لیے وزیراعظم کا ایک اہم فیصلہ۔ یکم جنوری سے ہر پاکستانی شہری کا شناختی کارڈ ہی صحت کارڈ تصور کیا جائے گا۔ یکم جنوری کو اپنی اہلیت جاننے کے لیے قومی شناختی کارڈ نمبر بغیر ڈیش کے لکھیں اور 8500 پر میسج کریں۔ صحت کارڈ سے دو طرح کے علاج ہوں گے۔
ثانوی علاج میں زچگی، نارمل، C سیکشن آپریشن۔ پیدائش سے پہلے 4 بار معائنہ، پیدائش کے بعد ایک بار معائنہ، نوزائیدہ بچے کا ایک بار معائنہ، اس میں داخلے سے ایک دن قبل کی ادویات اور اسپتال سے اخراج کے بعد مزید 5 دن کی ادویات۔ ترجیحی علاج میں امراض قلب کا علاج، ذیابیطس، حادثاتی چوٹیں، یعنی ہڈیوں کی ٹوٹ پھوٹ کا علاج، سڑک کے حادثے کا علاج، جگر، گردے، پھیپھڑوں، یرقان، کالے یرقان، کینسر، اعصابی نظام کی جراحی۔ یہ تمام بیماریاں ہیں جن کا علاج صحت کارڈ کے ذریعے ممکن ہے۔ مقرر کردہ اسپتال میں پہنچتے ہی صحت سہولت پروگرام کا نمائندہ اسپتال کے استقبالیے پر آپ کی رہنمائی کے لیے موجود ہوگا۔ نمائندہ آپ کے قومی صحت کارڈ کی جانچ کے بعد آپ کو متعلقہ شعبے کے متعلق رہنمائی کرے گا۔ داخلی علاج کی صورت میں مریض کو کرائے کی مد میں ایک ہزار روپے بھی دیے جائیں گے جو کہ ایک سال میں زیادہ سے زیادہ 3 مرتبہ ادا کیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ اگر مریض پینل کردہ اسپتال میں دوران علاج فوت ہوجائے تو اس کی تجہیز و تدفین کے لیے مبلغ 10 ہزار روپے ادائیگی کی جائے گی۔ میں نے اپنے حصے کا کام کردیا ہے تا کہ غریب آدمی کو اس کارڈ کی اہمیت کے بارے میں پتا ہو۔ ویسے تو موجودہ حکومت اب تک مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں ناکام نظر آرہی ہے مگر صحت کارڈ ایک اچھا اور فلاحی اقدام ہے۔