پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات نے پھر ایک بار زبردست پلٹا کھایا ہے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے جب سے پاکستان معرض وجود میں آیا ہے اس کے پڑوسی افغانستان کے ساتھ اس کے تعلقات ایک عجیب و غریب نشیب و فراز سے دو چار رہے ہیں جس کی نظیر عصری تاریخ میں مشکل سے ملتی ہے۔ گو اب یہ بات تاریخ کے اوراق میں دب گئی ہے لیکن یہ حقیقت پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کی منفی بنیاد ہے کہ قیام پاکستان کے بعد جب ستمبر 1947 میں اقوام متحدہ کی رکنیت کا معاملہ پیش ہوا تو جنرل اسمبلی میں افغانستان واحد ملک تھا جس نے پاکستان کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ 1947 میں دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات تو قائم ہو گئے لیکن ایک سال بعد ہی افغانستان کے ایک سرحدی دیہات پر فائرنگ کے واقعے نے تعلقات کو کشیدگی کی کھائی میں دھکیل دیا۔ اس کے بعد افغانستان کے بادشاہ ظاہر شاہ نے افغان شوریٰ میں اعلان کیا کہ افغانستان ڈیورنڈ لائین کو تسلیم نہیں کرتا۔ یہ سرحد انیسویں صدی میں انگریزوں نے کھینچی تھی۔ جو پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد مانی جاتی ہے۔
1955 میں دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات منقطع ہو گئے۔ اس دوران افغان طیاروں کی طرف سے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ جاری رہا اور افغان وزیر اعظم سردار دائود نے پختونستان کے بارے میں افغان موقف کی بھرپور حمایت کی سوویت یونین نے بھی افغان موقف کی حمایت 1960 میں درۂ خیبر کے شمال میں باجوڑ میں لڑائی بھڑک اٹھی۔ جس کے بعد پھر ایک بار سفارتی تعلقات منقطع ہو گئے۔ ان کشیدہ حالات میں سرحد بند ہونے سے افغان معیشت پر زک پڑی اور نتیجہ یہ ہوا کہ 1963 میں افغان وزیر اعظم سردار داود کو مستعفی ہونا پڑا۔ ایران کی مصالحت کے بعد دونوں ملکوں میں کشیدگی ختم ہوئی۔
ایران اور سعودی عرب کی مصالحت کے نتیجے میں تعلقات بحال ہوئے۔ 1970 میں جب سردار دائود دوبارہ وزیر اعظم بنے تو انہوں نے ڈیورنڈ لائن کے بارے میں اپنی سخت پالیسی برقرار رکھی۔ شاہ ایران اور سعودی عرب نے پھر دونوں ملکوں نے مداخلت کی اصل مقصد اس کا سردار دائود کو کمیونسٹوں اور سویت یونین کے اثر سے نکالنا تھا جن کی مدد سے سردار دائود نے اپنے برادر نسبتی ظاہر شاہ کا تخت الٹ دیا تھا۔ اس تحریک کے پس پشت مغربی طاقتیں کار فرما تھیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اس زمانے میں سردار دائود کو پاکستان مدعو کیا۔ اسلام آباد میں سردار دائود کی بات چیت سے سوویت یونین کو اس قدر تشویش ہوئی کہ انہوں نے سردار دائود کی حکومت کا تختہ الٹ کر انہیں شاہی محل میں قتل کرادیا۔ اس کے بعد افغانستان میں سوویت یونین اور مجاہدین کے درمیان طویل جنگ کا دور شروع ہوا۔ جس میں پاکستان نے مغربی ملکوں کی بھر پور مالی اور فوجی امداد کے ساتھ مجاہدین کی اعانت کی۔ سوویت یونین کی پسپائی کے بعد مجاہدین کی باہمی کشمکش اور تباہی کے نتیجے میں طالبان کا ظہور در اصل پاکستان کا مرہون منت تھا اور اس کا مقصد وسط ایشیا کے تیل اور گیس کی درآمد کے لیے افغانستان سے محفوظ راستہ حاصل کرنا تھا۔ اس وقت ان کوششوں میں امریکی تیل کمپنیاں اور وسط ایشیا کے چند ممالک شامل تھے۔ لیکن طالبان کے عسکری بازو پر القاعدہ کے حاوی ہونے کی وجہ سے پاکستان ناکام رہا اسی طرح جس طرح گیارہ ستمبر کے بعد امریکا کے مطالبے پر پاکستان اسامہ بن لادن کو امریکا کے حوالے کرنے میں ناکام رہا۔ جس کے نتیجے میں افغانستان کو امریکا کی جارحیت کا نشانہ بننا پڑا۔ افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد صورت حال ابھی واضح نہیں کہ وہاں اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اور پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کی نوعیت کیا ہوگی۔