کیا محدود اوورز کے میچز کرکٹ ہے؟

497

کسی زمانے میں کرکٹ کا کھیل صرف ٹیسٹ میچوں تک ہی محدود ہوا کرتا تھا۔ ہر ٹیسٹ میچ 5 روزہ ہونے کے باوجود بھی شائقین کے لیے اتنی کشش رکھتا تھا کہ اسٹیڈیم تماشائیوں سے اس بری طرح بھر جاتا تھا کہ شائقین نشستیں پْر ہوجانے کے بعد باؤنڈری لائن تک آکر بیٹھ جایا کرتے تھے۔ اسٹیڈیم کی ارد گرد کی ایسی عمارتیں جہاں سے میچ دیکھا جا سکتا تھا، دیکھنے والے ان کی چھتوں اور بالکونیوں سے میچ کا نظارہ کیا کرتے تھے۔ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ 5 روزہ کرکٹ کے اس مقابلے کو ’’ٹیسٹ‘‘ کیوں کہا جاتا تھا؟۔ گزرے زمانے میں ٹیسٹ کرکٹ کے زیادہ تر مقابلے سخت گرمیوں میں کھیلے جاتے تھے۔ یہ اس لیے ہوتا تھا کہ کھیل سورج روشنی سے شروع ہو کر روشنی ہی میں اختتام پزیر ہو۔ ایک جانب گرمیوں کی پوری دھوپ اور دوسری جانب سخت لو میں کھلاڑیوں کو میدان میں پورے چھے گھنٹے گزارنا، ہر کھلاڑی کا پہلا ’’ٹیسٹ‘‘ یعنی آزمائش ہوا کرتی تھی کہ وہ موسم کے یہ سخت گرم گھنٹے کیسے گزارتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس زمانے کے کرکٹرز جسمانی لحاظ سے آج کل کے کھلاڑیوں کے مقابلے میں زیادہ توانا ہوا کرتے تھے۔ گیند بازوں کا ایک ہی دن میں بیس بیس اوورز کرانا، فیلڈنگ کرنے والوں اور وکٹ کیپر کا سارا دن چاق و چوبند رہنا۔ ہر گیند کو اس کے مطلوبہ معیار کے مطابق کھیلنا۔ کوئی بھی غیر روایتی شاٹ نہ کھیلنا۔ اکثر وقت کے تقاضوں مطابق کریز میں وقت گزارنا۔ کبھی معمول سے زیادہ تیز رفتاری کا مظاہرہ کرنا اور کبھی سارا سارا دن 100 دوڑیں بھی نہ بنانا جیسے سارے ہنر کی آزمائش کا نام ٹیسٹ یا باالفاظِ دیگر ’’کرکٹ‘‘ کہلایا کرتی تھی۔
دنیائے کرکٹ کی ہر ٹیم اس وقت کی بہر لحاظ ایک مضبوط ٹیم ہوا کرتی تھی۔ ہر ٹیم اور ٹیموں کا ہر کھلاڑی کیونکہ کرکٹ کو ’’پٹھو گرم‘‘ یا ’’گلی ڈنڈے‘‘ کی طرح نہیں کھلا کرتے تھے اس لیے زیادہ تر میچ اپنے حتمی فیصلوں تک پہنچنے سے قبل ہی اختتام پزیر ہو جایا کرتے تھے۔ ٹیموں کا ایک دو نہیں، پورے پانچ دن میدان میں گزارنے کے باوجود بھی اپنے مقررہ وقت میں غیر فیصلہ کن میچ کھیلنا اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ ہر کھلاڑی کرکٹ کو کتنی سنجیدگی کے ساتھ لیتا ہوگا اور ثابت کرتا ہوگا کہ ٹیسٹ کرکٹ واقعی اس کے کرکٹر ہونے کی کتنی بڑی آزمائش ہے۔ ٹیسٹ میچوں کے غیر فیصلہ کن میچوں کی وجہ سے دنیائے کرکٹ کے جتنے بھی ذمے داران ہیں انہوں نے یہ سوچنا شروع کردیا تھا کہ کیوں نہ ٹیسٹ میچوں کے دنوں میں اضافہ کر دیا جائے۔ ایسا تو نہ ہو سکا لیکن کرکٹ کو ایک نئی شکل ضرور دے دی گئی۔ اول اول ’’ون ڈے‘‘ کرکٹ کا نام دے کر اس کو 50 اوورز تک محدود کر دیا گیا۔ دیکھا جائے تو یہی وہ موڑ تھا جہاں کرکٹ کے زوال کا سفر شروع ہوا اور کرکٹ ’’لگ گیا تو تیر نہیں تو تکا‘‘ میں تبدیل ہونا شروع ہو گئی۔ اس پر مزید زوال اس وقت آیا جب ٹی ٹونٹی کرکٹ کا آغاز ہوا۔ پچاس اوورز کے کھیل تک جو کرکٹر آدھے ’گلی ڈنڈے‘ والے بن چکے تھے، ٹی ٹونٹی نے ان کو ’پٹھو گرم‘ والا بنا کر رکھ دیا۔
ففٹی ففٹی میں تو پھر بھی ہر بالر کو دس اوورز مل جاتے ہیں جس کی وجہ سے اس کے پاس اپنا ہنر دکھانے کا موقع مل جاتا ہے۔ بلے باز بھی اگر سلیقے سے کھیلے تو وہ کافی زیادہ گیندیں کھیل سکتا ہے لیکن ٹی ٹونٹی میں گیند باز اپنے 4 اوورز میں صرف اپنے آپ کو خراب کرنے کے علاوہ اور کیا کر سکتا ہے۔ اسے جتنی بھی وکٹیں حاصل ہوتی ہیں وہ مخالف کھلاڑی کے تکے کو تیر بنانے کی کوشش میں ملتی ہیں ورنہ پانچ دس اوورز کسی عام سے کرکٹر کے لیے گزار جانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔
ففٹی ففٹی ہو یا ٹی ٹونٹی، ان دونوں میں سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ بہت ہی کم ایسا ہوتا ہے کہ ٹیم کے ہر کھلاڑی کو بیٹنگ کا موقع میسر آئے۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ ابتدائی کھلاڑی ہی وقت پورا کردیا کرتے ہیں۔ وہ کھلاڑی جو میڈل آرڈر کھلاڑی کہلاتے ہیں ان کا ریکارڈ بڑے بڑے ٹورنامنٹوں میں صفر رہ جاتا ہے۔ ان کے ریکارڈ کا اس طرح صفر تک محدود رہ جانا اور کچھ کا نہایت شاندار بن جانا کیا کرکٹ کا مثبت پہلو کہلایا جا سکتا ہے؟۔محدود اووروں کی اس کھیل کو اگر پٹھو گرم یا گلی ڈنڈے کا کھیل بننے سے بچانا ہے تو اس کا نام کرکٹ کے بجائے کچھ اور رکھنا ہوگا نیز یہ کہ اگر گیند بازوں پر 4 یا 10 اووز کی قدغن لگانا قانون بنا دیا گیا ہے تو 50 اور 20 اوورز کے کھیل میں بلے بازوں پر بھی اسی قانون کے مطابق علی الترتیب 30 اور 12 گیندیں کھیلنے کی قید لگانی چاہیے تاکہ ہر ٹیم کے سارے بلے بازوں کو یکساں موقع مل سکے۔