(رپورٹ: قاضی سراج) ملک میں صنعتی ترقی کے زوال کی بڑی وجہ مزدوروں کی صحت و سلامتی پر توجہ نہ دینا ہے‘ صحت مند محنت کش ملک میں صنعتی انقلاب کا ضامن ہے مگر یہاں مزدور کی ہی صحت اور سلامتی پر توجہ نہیں دی جاتی‘ فیکٹری مالکان جس کے ذریعے اپنی آمدن حاصل کرتے ہیں اس پر ہی توجہ نہیں دیتے‘ انتہائی کم اجرت کے باعث مزدور ذہنی طور پر پریشان رہتا ہے‘ اسے مختلف فکرات لاحق رہتی ہیں جس کی وجہ سے وہ نہ کام کا معیار برقرار رکھ پاتا ہے اور نہ ہی پروڈکشن میں اضافہ ممکن ہو پاتا ہے‘ اکثر فیکٹری مالکان یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اسے کم تنخواہ دیکر یا پھر اسے قانونی طور پر دی جانے والی مراعات و سہولیات نہ دے کر پیسہ بچاتے ہیں تاہم صورتحال اس کے برعکس ہے‘ مزدوروں کی حق تلفی کے ذریعے فیکٹری مالکان نہ صرف دنیا میں وہ منافع حاصل نہیں کر پاتے جو حاصل ہونا چاہیے تھا بلکہ کسمپرسی کے شکار محنت کشوں اور ان کے اہل خانہ کی بددعاؤں کی وجہ سے آخرت میں بھی ناکامی سے دوچار ہوں گے‘ محنت کش شبانہ روز کام کر رہے ہیں لیکن کسی بھی وجہ سے حادثہ ہونے پر سب سے پہلے مزدور ہی زخمی یا ہلاک ہوتا ہے اسی وجہ سے ملٹی نیشنل ادارے محنت کشوں کی پیشہ ورانہ صحت و سلامتی کو ترجیح دیتے ہیں لیکن افسوس پاکستان میں صنعت کار منافع کے حصول کو اولیت دیتے ہیں‘ بعض اوقات کارخانہ میں حادثہ کی صورت میں ہلاک ہونے والے مزدور کو انتظامیہ تسلیم ہی نہیں کرتی کہ وہ اس کے کارخانہ میں کام کرتا تھا‘محکمہ محنت کے اہل کار لفافہ پکڑ کر صحت و سلامتی سے متعلق سب اچھا کی رپورٹ دیتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار متحدہ لیبر فیڈریشن پاکستان کے جنرل سیکرٹری مختار حسین اعوان، لکی ٹیکسٹائل ملز کے ڈپٹی جنرل منیجر ایڈمنسٹریشن ریحان صدیقی، حسن علی، سندھ لیبر فیڈریشن کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری شیخ مجید، دلاور خان تنولی ایڈووکیٹ‘ ای اوبی آئی کے سابق افسر تعلقات عامہ اور ماہر سماجی تحفظ اسرار ایوبی، یعقوب حسین رضوی نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’مزدوروں کی صحت و سلامتی پر عدم توجہ اور کم اجرت کے صنعتوں پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟‘‘ مختار حسین اعوان نے کہا کہ ورکرز کی صحت وسلامتی کے معاملات کو ترجیحی بنیادوں پر دیکھا جائے جس کے لیے ضروری ہے کہ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے کنونشن کے ذریعے دی ہوئی مراعات اور سیفٹی قوانین پر مکمل طور پر عملدرآمد کرانا حکومتی ذمے داری ہے جوکہ وہ ادا نہیں کر رہی ہے‘ ہماری تجویز ہے کہ مزدور تنظیموں کے ساتھ مشاورت سے مالکان کو مجبور کیا جائے کہ وہ کم از کم حکومت کے بنائے ہوئے قوانین پر عملدرآمد کریں۔ ریحان صدیقی نے کہا کہ صحت و سلامتی کی تربیت آپ کو کام کے دوران زخمی ہونے اور بیمار پڑنے سے بچانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے‘ یقیناً فیکٹری مالکان صحت و سلامتی کے تمام امور کے ذمے دار ہیں لیکن کارکن پر بھی لازم ہے کہ وہ ان سب معاملات میں آجر اور ان کے نمائندوں کی مدد کرے‘ آجر کو لازمی طور پر بروقت فیصلہ کرنے چاہییں کہ کیا چیزیں کارکن کے لیے دوران کام نقصان کا باعث ہوسکتی ہیں اور ان سے بچنے کے لیے کیا احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہییں۔حسن علی نے کہا کہ قوانین کے تحت صوبائی یا وفاقی حکومتوں کی ذمے داری ہے کہ وہ بطور انسپکٹرز کسی شخص کو تعینات کرے اور وہ ان قوانین کا بلاامتیاز نفاذ کرے‘ حکومتی ادارے جیسے کہ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف لیبر ایڈمنسٹریشن اور ڈائریکٹوریٹ آف ورکرز ایجوکیشن کارکنوں کو پیشہ ورانہ صحت و حفاظت پر ٹریننگ دیتے ہیں مگر عمل درآمد درآمد نظر نہیں آتا ہے‘ کم آمدنی والے مزدوروں کو اس وقت تحفظ کی ضرورت ہوتی ہے جب وہ اپنی بیماری یا اپنے خاندان کے لوگوں کی بیماری کے باعث کام نہیں کرسکتے ہیں جس کے باعث ٹھیکیدار یا مالکان انہیں فارغ کردیتے ہیں‘ امداد کے بغیر یہ مزدور بھاری معاشی مشکلات کا نشانہ بن جاتے ہیں‘ 12ستمبر2012ء کو کراچی میں علی انٹر پرائزز گارمنٹس فیکٹری میں آگ لگنے سے پاکستان کی تاریخ کا سب سے ہولناک صنعتی سانحہ پیش آیا، تفتیش کے نتیجے میں بہت سی بے ضابطگیاں پائی گئیں جن میں حفاظتی نظام اور آگ بجھانے کا طریقہ کار بالکل موجود نہیں تھا‘انتظامیہ نے فوری طور پر مزدوروں کو بچانے کی بھی کوئی کوششیں نہیں کی بلکہ انہوں نے پہلے اپنا مال بچانے کی کوشش کی۔ شیخ مجید نے کہا کہ سانحہ بلدیہ ٹائون علی انٹر پرائز کے بعد بھی بہت سے حادثات رونما ہوچکے ہیں، ابھی اسی سال مہران ٹائون کے رہائشی علاقے میں ایک فیکٹری کے اندر20 نوجوان جل کر لقمہ اجل بنگئے تھے اس میں محکمہ لیبر کی کوئی سنجیدگی کہیں نظر نہیں آتی ہے۔دلاور خان تنولی ایڈووکیٹ نے کہا کہ جن صنعتوں میں ملازمین کی صحت اور سلامتی کا اچھی طرح سے خیال نہیں رکھا جاتا‘ وہاں ملازمین کی کام کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے‘ آئے دن چھوٹے بڑے حادثات ملازمین کو زخمی، بیمار اور عارضی یا مستقل طور پرمعذور کر رہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ وقت اور پیسے کا بھی ضیاع ہوتا ہے‘ ملازمین کی ذہنی صحت کا تحفظ بھی مالکان کی ذمے داری ہے‘ انتظامیہ کی طرف سے کام کا بے جا دباؤ، دھمکیاں، ہراساں کرنا ملازمین کی ذہنی صحت کو بہت بری طرح متاثر کرتا ہے جس سے نا صرف ان کی پیداواری صلاحیت کم ہوتی ہے بلکہ گھریلو زندگی بھی بری طرح متاثر ہوتی ہے‘ آجر کو چاہیے کہ وہ اپنے ادارے میں صحت اور سلامتی کا ایک علیحدہ ڈپارٹمنٹ قائم کرے تاکہ ادارے میں کام کرنے کا محفوظ ماحول مہیا ہو اور اس کے نتیجے میں پیداوار بڑھے۔ اسرار ایوبی نے کہا کہ ہمارے ملک میں فیکٹری مالکان قوانین کی خلاف ورزی کرکے کارکنوں کی صحت و سلامتی جیسی اہم ذمہ داریوں سے سنگین غفلت برتے ہیں جس کے نتیجے میںحادثات سے انسانی جانیں لقمہ اجل بن جاتی ہیں اورکروڑوں روپے کی املاک بھی تباہ ہو تی ہے اور پھر مالکان کو اپنے بچاؤ کے لیے وکلا کی بھاری فیسوں، طویل مقدمہ بازی اور ہلاک کارکنوں کے لواحقین کو زرتلافی کی مد میں لاکھوں روپے ادا کرنے پڑتے ہیں‘ اس لیے کارکنوں کے لیے صحت و سلامتی کے مقررہ قواعد و ضوابط کے نفاذ کو ہر ممکن یقینی بنایا جائے۔یعقوب حسین رضوی نے کہا کہ مزدوروں کی صحت و سلامتی کا خیال رکھنا آجرکی اولین ذمہ داری بنتی ہے کیونکہ مزدوروں کی صحت کا خیال رکھنا ایک بنیادی انسانی حق شمارکیا جاتا ہے جس کی ضمانت انسانی حقوق کا عالمی منشور اور پاکستان کا قانون بھی دیتا ہے‘ بلدیاتی اداروں میں کنڈی مینوں کو اب عارضی نوکری پر رکھا جا رہا ہے جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے۔