صحافت نے زہن سازی اور تربیت کے بجائے انتشار کا راستہ دکھا یا

257

کراچی (رپورٹ: حماد حسین) صحافت نے عوام کی ذہن سازی اور تربیت کرنے کے بجائے انتشار کا راستہ دکھایا‘ صحافت کاروبار بننے سے قوم تقسیم ہوگئی‘ ترقی پذیر ممالک میں حکومتیں قومی سلامتی کے نام پر میڈیا کو نکیل ڈال کر رکھتی ہیں‘ تحقیق نگاری کی جگہ مداح سرائی اور جھوٹ شروع ہوا تو قوم مفلوک الحال ہوگئی‘جب کاروباری افراد اپنے پیسے کے بل بوتے پر چینلز اور اخبارات کے مدیر بنے تو کمرشلزم ہر چیز پرحاوی ہو گیا۔ ان خیالات کا اظہار علما یونیورسٹی کے ڈین ڈاکٹر یاسمین سلطانہ فاروقی، جناح یونیورسٹی برائے خواتین کے شعبہ میڈیا اسٹڈیز کے چیئرمین ڈاکٹر سید شجاعت حسین اور بلوچستان یونیورسٹی آف انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اینڈ مینجمنٹ سائنسز کے شعبہ ماس کمیونیکیشن کے استاد اکرام الدین نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’صحافت مشن کے بجائے کاروبار بننے سے ملک پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں؟‘‘ ڈاکٹر یاسمین سلطانہ فاروقی کا کہنا تھا کہ آج تک صحافتی اقدار کو درست سمت میں پنپنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا‘ سنسر شپ کے ذریعے اظہار رائے کی آزادی کو کنٹرول کیا جاتا ہے ‘ اہم موضوعات کو ناپسندیدہ قرار دے کر ان پر گفتگو کی مخالفت کی جاتی ہے کیونکہ یہ حکومت کے مفادات کے خلاف ہوتے ہیں‘ یہ درست ہے کہ اب صحافت مشن نہیں کاروبار ہی ہے‘کاروبار خوب پھل پھول رہا ہے مگر عام صحافی بدحالی کا شکار ہو رہے ہیں‘ انہیں نوکری سے نکالا جا رہا ہے‘ اداروں کی طرف سے تحفظ نہیں ہے‘ اگر وہ کسی اسائمنٹ پر جائیں اور ان کی زندگی کا چراغ گل ہوجائے تو مالکان بالکل بری الذمہ ہوجاتے ہیںحالانکہ قواعد کی رو سے ان کے لواحقین کی کفالت مالکان کے ذمے ہوتی ہے‘ جب اخبار و ٹی وی چینل کے مالکان غیر تربیت یافتہ ہوں اور اپنے کاروبارکے بل بوتے پر چینل کھول کر بیٹھ گئے ہوں، کوئی گھی والا ہے تو کوئی تمباکو کا کاروبار کرتا ہے۔ جب ایسے تجارتی ذہن رکھنے والے میدان صحافت میں آجائیں گے اور مدیر کی کرسی کی حرمت پامال کریں گے تو کیسی صحافت کہاں کا آزادی رائے‘اب کمرشلزم ہر چیز پر اتنا حاوی ہوگیا ہے کہ صحافت کہیں کھو گئی ہے‘معیاری صحافت قصہ پارینہ ہوگئی ہے‘ اب خبروں کی جگہسیاستدانوں اورسیاسی پارٹیوں کے کارکنوں کے بیانات شائع کیے جاتے ہیں۔ سید شجاعت حسین کا کہنا تھا کہ پہلے یہ سوال کیا جاتا تھا کہ صحافت مشن ہے یا کاروبار۔ مگر اب صرف یہ کہا جاتا ہے کہ کیا صحافت کاروبار ہے‘ اب پوری دنیا میں سب آن لائن بھی چل رہا ہے‘ اب اس کو بزنس کے حساب سے دیکھنا ہے‘ خبر تو بھاڑ میں جائے‘ یہ کہہ دیں گے کہ جی غلطی ہوگئی غلط خبر چھپ گئی ہے‘ سب سے پہلے خبر کس نے دی‘ خبر سے متعلق1400 سال پہلے بتادیا گیا کہ جب کوئی خبر دے تو پہلے تحقیق کرلو مگر ہم اب یہ کہتے ہیں کہ جو پہلے خبر دے گا اصل وہی خبر ہے۔ اس سے سارا بزنس شروع ہوجاتا ہے ہائی ٹیک سہولت استعمال کی جاتی ہیں اور یہ نہیں دیکھا جاتا کہ خبر صحیح ہے یا غلط‘ اسی پر اشتہارات بھی چلنا شروع ہوجاتے ہیں‘ اسی طرح دیگر چیزوں سے اشتہار ملتے ہیں‘ اب کی صحافت یہ کہتی ہے کہ لوگ کیا دیکھنا چاہتے ہیں‘ بزنس کے بھی پہلے کچھ اصول ہوتے تھے مگر اب نہیں ہیں‘ یہی اصول صحافت میں بھی ختم ہوگئے ہیں‘ یہ صرف صحافت کا مسئلہ نہیں ہے یہ اب پوری دنیا کا مسئلہ ہے۔ اکرام الدین کا کہنا تھا کہ صحافت جب کاروبار بن گئی تو خود صحافت پر کیا اثرات مرتب ہوئے۔اس ضمن میں سب سے اہم اور عام فہم بات تو یہ رہی کہ صحافت، صحافت نہ رہی‘ دوسری بات یہ کہ عوام کا اعتماد ختم ہوگیا‘ صحافتی خبروں میں سچ سے زیادہ پروپیگنڈا شامل ہوگیا‘ جب صحافی مالدار اور صحافت بے توقیر ہوئی تو ملک میں سچ کا سفر رک گیا‘ حق گوئی اور تحقیق نگاری کے بجائے مداح سرائی اور جھوٹ کی پذیرائی شروع ہوئی جس سے سرکار تو خوش رہی مگر عوام بیزار اور مفلوک الحال ہوئے‘یہ ناممکن ہے کہ جہاں صحافت کاروبار ہو اور وہاں عقل و دلیل دستیاب ہو‘ زندہ مثال سیالکوٹ والا واقعہ ہے‘ اگر پاکستان میں صحافت کاروبار کے بجائے صحافت رہتی اور معاشرے کی اصلاح اور معلومات عامہ کے فروغ کے لیے کام کرتی تو ممکن ہے کہ یہ وحشیانہ پن نہیں ہوتا۔