پشاور میں 16 دسمبر 2014ء کو جو قیامتِ صغریٰ برپا ہوئی اس کے اثرات سات سال بعد بھی غم کی لہریں اٹھا رہے ہیں جو ہمیشہ محسوس کی جاتی رہیں گی۔ جن خاندانوں کے چشم و چراغ، پھول اور کلیاں اس ظلم و سفاکی کی بھینٹ چڑھے وہ اس واقعہ کو کیسے بھول سکتے ہیں؟ ان کی آنے والی نسلیں بھی اسے ایک سوگ اور اندوہ کے ساتھ یاد کیا کریں گی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ملک میں بہت بڑے آپریشن جاری ہوں اور درجنوں انٹیلی جنس ایجنسیاں بھی ملک میں سرگرم عمل ہوں تو ایسی غفلت، بے خبری اور لاپروائی کا کیا جواز ہے؟ یہ ااسکول جس میں قیامت گزری کسی دور دراز ویران جگہ پر نہیں بلکہ پشاور جیسے اہم ترین صوبائی صدر مقام کے پررونق علاقے میں واقع ہے۔ اسکول کا نام (آرمی پبلک اسکول) بذات خود اس کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔
اس اسکول میں سویلین آبادی کے بچے بھی پڑھتے ہوںگے مگر زیادہ تر مسلح افواج سے تعلق رکھنے والے خاندانوں کے نونہال یہاں زیر تعلیم ہوں گے۔ فوج خود دفاعی ادارہ ہے اور اس کے حفاظتی انتظامات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ فول پروف ہیں۔ اگرچہ یہ مفروضہ اس سے پہلے بھی جی ایچ کیو راولپنڈی، ائر فورس کے اہم مرکز کامرہ اور واہگہ بارڈر کے علاوہ کراچی ائرپورٹ کے سانحات میں غلط ثابت ہوچکا تھا۔ لیکن پشاور کے دردناک سانحہ نے تو قوم میں بہت ہی زیادہ بددلی اور مایوسی کی کیفیت پیدا کردی۔ آج بھی تمام سیکورٹی اداروں کا نئے سرے سے جائزہ لیا جانا چاہیے جن پر ملک کی خطیر رقم خرچ ہوتی ہے۔ ملک کی حفاظت کے لیے جتنا بھی بجٹ صرف کیا جائے اس کا جواز موجود ہے، مگر اس کے نتائج تسلی بخش نہ ہوں تو ہر شہری تڑپ اٹھتا ہے۔
جب یہ واقعہ رونما ہوا تھا تو ملک ہی نہیں پورا عالمِ اسلام بلکہ پوری دنیا سکتے میں آگئی تھی۔ واقعہ قابل مذمت تھا اور ہمیشہ رہے گا، مگر لمحۂ فکر یہ بھی ہے کہ ہم کیسے معاشرے اور کیسی حکومتوں کے تحت زندگی بسر کررہے ہیں۔ اگر آپ کو یاد ہو تو آئی ایس پی آر کی طرف سے حادثے کے پہلے ہی دن بہت واضح الفاظ میں کہا گیا تھا کہ دہشت گرد پہچان لیے گئے ہیں، ان کی اصلیت ظاہر ہوگئی ہے، کہاں سے انہیں ہدایات مل رہی تھیں اور کون لوگ ان کے ساتھ رابطے میں تھے، سب کچھ معلوم ہوچکا ہے۔ اسی ادارے کی اطلاعات کے مطابق یہ سارے دہشت گرد قتل ہوگئے تھے۔ تاہم یہ نہ بتایا گیا کہ آیا انہوں نے خود اپنے آپ کو دھماکے سے اڑا کر خودکشی کی یا ہماری سیکورٹی فورسز نے یہ کارنامہ سرانجام دیا۔
سات سال گزر گئے، آج تک پوری تفصیلات معلوم نہیں ہو سکیں۔ یہ بھی معلوم نہیں کہ ان میں سے کوئی دہشت گرد وہاں سے نکل کر بھاگنے میں بھی کامیاب ہوا تھا یا نہیں، کیا قتل ہونے والے دہشت گردوں کے ڈی این اے ٹیسٹ لیے گئے تھے اور ان کا رزلٹ کیا تھا؟ قوم آج تک اندھیرے میں ہے۔ اب خدا خدا کر کے عدالت عظمیٰ نے وزیراعظم اور دیگر سرکاری ذمے داران کو نوٹس دیا ہے کہ وہ سارے اعداد وشمار اور مظلوم خاندان کی دادرسی کی رپورٹ پیش کریں۔
اصل حقائق عدلیہ ہی نہیں بلکہ عوام الناس اور پوری قوم تک پہنچانا حکومت اور دیگر متعلقہ اداروں کی ذمے داری ہوتی ہے، جس کا ہمارے ہاں ہمیشہ فقدان رہا۔ اگر مجرم معلوم ہو جائیں اور ان کے تانے بانے اور ڈانڈوں کو طشت ازبام کر دیا جائے تو آئندہ کی پیش بندی اور احتیاطی تدابیر آسان ہو جاتی ہیں۔ نیز عوام الناس بھی مطمئن ہوتے ہیں کہ ہمارے سرکاری ادارے بیدار اور فرض شناس ہیں اور اپنا اپنا کام ٹھیک انداز میں کر رہے ہیں۔ اب تک ہماری حکومتوں کی پالیسی یہ رہی کہ حادثہ ہونے کے وقت اعلانات تو کیے جاتے ہیں مگر بعد میں نتیجہ صفر برآمد ہوتا ہے۔ پھر جو مجرم پکڑے بھی جائیں اُن کے بارے میں کسی کو کچھ پتا نہیں چلتا کہ اُن کا انجام کیا ہوا؟ کیا ہماری سرزمین پر ریمنڈ ڈیوس کے قبیح جرم اور پھر اُس کے بغیر کسی تادیب و سزا کے ملک سے بھگا دیے جانے کو قوم بھول سکتی ہے؟ خدا کے لیے ہر سانحہ کے بعد ’’مٹی پائو‘‘ کی پالیسی اب ترک کر دیجیے۔ اب تک بہت ہو چکی، آئندہ حالات سنورنے چاہییں۔
اسی طرح ہمارے بدترین دشمن انڈیا کے وہ ایجنٹ جنہوں نے یہاں دھماکے کیے، پھر پکڑے گئے، کئی انسانی جانوں کے قاتل ثابت ہوگئے اور عدالتوں نے اُنہیں سزا بھی دے دی مگر حکمرانوں نے کمال غیرذمے داری سے بزدلی کی چادر اوڑھنے کا فیصلہ کرلیا۔ دشمن ملک سے خیرسگالی کی خاطر اپنے شہریوں کے خون کو روندتے ہوئے ان مجرموں کو چھوڑ دیے جانے کا جواز پیش نہیں کیا جاسکتا۔ کیا سربجیت سنگھ کا واقعہ ہم بھول سکتے ہیں؟ اب کلبھوشن یادیو کے بارے میں معلوم نہیں کیا ہوتا ہے۔ ظالم کی حفاظت اور مظلوم کو نظرانداز کرنا اللہ کے غضب کا باعث بنتا ہے۔ سزائے موت کا حکم کسی پارلیمانی قانون کے نتیجے میں نافذ نہیں ہوا تھا، یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اور قتل و غارت گری کو روکنے کے لیے قصاص کا قانون عطیۂ خداواندی ہے۔ یہ فیصلہ عدالت نے پورا کیس سننے کے بعد صادر کیا تھا۔ اگر ایسے فیصلوں کا نفاذ ہوجائے تو اس کے نتیجے میں ملک میں یقینا قتل کی وارداتوں میں کمی ہوتی ہے اور غیر ملکی دہشت گردی کو بھی لگام دی جا سکتی ہے۔ یورپین یونین اور امریکا کے دبائو پر قانونِ قصاص کو معطل کرنا کیا اللہ تعالیٰ سے بغاوت کے زمرے میں نہیں آتا؟
بتوں سے تجھ کو امیدیں، خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے!
پشاور کا یہ سانحہ رونما ہونے کے بعد چند مثبت چیزیں سامنے آئیں۔ ہر اچھی بات کی تحسین کی جانی چاہیے۔ پارلیمانی پارٹیوں کے اجلاس میں تمام سیاسی جماعتوں کے راہنمائوں نے ایک متفقہ موقف اختیار کیا جو نہایت خوش آئند تھا۔ موجودہ وزیراعظم عمران خان نے اپنے طویل دھرنے کے خاتمے کا اعلان کیا اور وزیر اعظم میاں نواز شریف نے سزائے موت پر عمل درآمد کے تعطل کو ختم کرتے ہوئے قانونِ قصاص کو بحال کر دیا۔ یہ تمام امور تازہ ہوا کا جھونکا محسوس ہوئے تھے۔ ہم نے ان سب کا خیر مقدم کرتے ہوئے امید ظاہر کی تھی کہ امن دشمنوں اور دہشت گردی کے مرتکبین کو قرار واقعی سزا ملے گی۔ نیز یہ کہ اصل مجرم باقاعدہ قانونی تقاضے پورے ہونے کے بعد جب سزائے موت کے مستحق قرار پائیں تو کسی ادارے یا شخصیت، خواہ وہ پارلیمان ہو یا صدرِ مملکت، کو یہ حق حاصل نہیں ہونا چاہیے کہ وہ قاتلوں کو معاف کر دیں۔ آج کے پرآشوب حالات میں قومی یک جہتی اور قانون کی بالادستی اور بھی ضروری ہو گئی ہے۔
ایک اور بات کی طرف بھی ہم رائے عامہ کو متاثر کرنے والی تمام شخصیات کو متوجہ کرنا چاہتے ہیں۔ ہر پاکستانی کو یاد ہوگا کہ اندرا گاندھی نے ۱۶ دسمبر ۱۹۷۱ء کے سانحۂ مشرقی پاکستان کے موقع پر بڑے تکبر سے کہا تھا کہ ہم نے نظریۂ پاکستان کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔ آج پھر انڈیا میں اندرا گاندھی سے بھی بدتر پاکستان اور مسلم دشمن سیاست دان نریندرا مودی حکمران ہے۔ ۱۶ دسمبر ۲۰۱۴ء کے اس واقعہ میں بھارتی کردار کو بھی یکسر نظرانداز نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اسی طرح امریکا کے بلیک واٹرز ملک کے چپے چپے پر موجود ہیں۔ بھارتی راء، اسرائیلی موساد اور امریکی سی آئی اے ہر ملک اور قوم سے اپنے ایجنٹ بھرتی کرتے ہیں۔ اگر کوئی بھی تنظیم ذمے داری قبول کرتی ہے تو یقینا جرم کی ذمے دار وہی ہوتی ہے۔ مگر ایسی تمام تنظیموں کا گہرائی میں جا کر پوسٹمارٹم کرنا چاہیے کہ ان کے اصل ڈانڈے کہاں ملتے ہیں، اُن کی بنیاد کس نے رکھی اور اُن کی مالی مدد کون کر رہا ہے۔
خدا خدا کر کے قومی وحدت پر اتفاق رائے پیدا ہوجائے اور سیاسی وذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر اہم قومی مسائل پر تمام قوتیں ایک موقف اپنائیں تو ہماری دفاعی قوت اور اندرونی سلامتی میں بہت بہتری آسکتی ہے۔ ملک میں حکومتیں بدلتی ہیں۔ ہر حکمران، سابقہ ہو یا موجودہ ایک دوسرے کو گالیاں دینا ضروری سمجھتا ہے، مگر ہر ایک کی پالیسی ایک ہی ہوتی ہے۔ اس وقت تو اپوزیشن اور عمران حکومت تمام اخلاقی حدود کو پامال کرنے کو اپنی قابلیت اور بہادری سمجھتے ہیں۔ خدارا! اب تو بالغ نظری کے ساتھ قومی معاملات پر متفقہ اسٹینڈ لینے کی روایت قائم کریں۔ کشمیر کو مودی نے ہڑپ کرنے کا جرم کردیا ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کو حق شہریت سے محروم کرنے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ ان حالات میں ایک زندہ قوم بن کر اپنی غیرت کا مظاہرہ کرنا وقت کا تقاضا ہے۔ کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے حالات میں بہتری پیدا نہ ہو۔
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
نے ابلۂ مسجد ہوں، نہ تہذیب کا فرزند!