ایک زمانہ تھا کہ پاکستان کے لوگ اپنی بہت ساری اشیا بیرونی ممالک سے منگوایا کرتے تھے۔ ان ممالک میں سعودیہ سمیت خلیجی ممالک، سنگاپور اور ملائیشیا شامل تھے۔ جن اشیا کو خریدا جاتا تھا وہ یہ نہیں کہ پاکستان کی مارکیٹ میں موجود نہیں ہوتی تھیں لیکن ان کی قیمت پاکستان میں زیادہ جبکہ پاکستان سے باہر کے بازاروں میں سستی ہوا کرتی تھی۔ یہ بات بھی نہیں کہ پاکستانی جن اشیا کو ان ممالک سے مول لیا کرتے تھے وہ ممالک پاکستان سے غریب تھے یا ان ممالک میں ملازمین کو پاکستان کے مقابلے میں کم اجرتیں ملا کرتی تھیں، وہ اس وقت بھی بہر لحاظ پاکستان سے خوشحال تھے اور وہاں کام کرنے والوں کی اجرتیں اس وقت کے پاکستان سے بہت زیادہ ہوا کرتی تھیں۔ اشیا کے سستا ہونے کی وجہ صرف اور صرف ٹیکسوں کا وہ نظام تھا جو اشیا کی قیمتوں پر اثر انداز نہیں ہوا کرتا تھا جس کی وجہ سے عام مارکیٹ میں، دوسرے ملکوں سے درآمد شدہ اشیا ان ہی قیمتوں میں مل جایا کرتی تھیں جن داموں وہ دیگر ممالک سے درآمد ہوا کرتی تھیں۔ یہ ساری اشیا پاکستان میں بھی ان ہی داموں میسر آ سکتی تھیں جن داموں وہ سعویہ، خلیجی ممالک، سنگاپور یا ملائیشیا کے بازاروں میں دستیاب ہوتی تھیں لیکن اس وقت بھی پاکستان میں درآمد شدہ اشیا پر کڑے ٹیکس عائد تھے اور آج بھی وہی عالم ہے کہ ’’وہی رفتار بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے‘‘۔ اگر گہرائی کے ساتھ جائزہ لیا جائے تو اْس وقت بھی پاکستان بہت ساری قدرتی پیداوار ہوں، درآمد شدہ اشیا ہوں یا ملوں اور کارخانوں میں تیار کی جانے والی مصنوعات، کسی معاملے میں سستا اور کسی معاملے میں مہنگا ملک تھا اور آج بھی ایسا ہی ہے۔
میں نے جب عملی زندگی میں قدم رکھا تو ایسی ملازمت ملی جس نے مجھے پاکستان کے بہت سارے چھوٹے بڑے شہر ہی نہیں، گاؤں دیہات تک گھما دیے۔ پاکستان کے ہر صوبے، شہر، گاؤں اور دیہات جس نے دیکھے ہوں اس کو یہ بات سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آ سکتی کہ اصل میں مہنگائی کے معنی اور مفاہیم ہوتے کیا ہیں۔ کیا قیمتیں نہایت کم ہونا یا اشیائے کی قیمتوں کا آسمان کی بلندیوں کو چھولینے کا نام سستا یا مہنگا زمانہ کہلایا جاتا ہے۔
مجھے اپنے بچپن کا وہ زمانہ بھی یاد ہے جب میں کراچی میں چلنے والی بسوں پر یہ تحریر پڑھا کرتا تھا کہ ’’ایک روپے سے زیادہ ریزگاری نہیں ملے گی‘‘ یا شہر کے اوسط درجے کے ہوٹلوں اور ریسٹورینٹوں کی دیواروں پر تحریر ہوا کرتا تھا کہ پانچ اور دس کے نوٹ والے افراد پہلے کاؤنٹر سے رجوع کریں۔ جس زمانے میں‘ میں کسی بھی اوسط درجے کے ہوٹل میں ناشتہ، ظہرانہ، عصرانہ اور عشائیہ صرف ایک روپے میں کرلیا کرتا تھا تو کیا اس وقت پاکستان آج کی نسبت زیادہ خوشحال تھا۔ ثابت ہوا کہ خوشحالی و بد حالی کا تعلق اشیائے ضروریہ، دیگر لوازماتی اور پْرتعیش اشیا کے سستا یا مہنگا ہونے سے نہیں بلکہ عوام کی قوتِ خرید سے ہوا کرتا ہے۔ کیا چھوٹے اور بڑے شہروں میں ہر شے کی قیمت یکساں ہوا کرتی ہے۔ کیا ایک ہی شہر کے ہر علاقے میں اشیا ایک ہی قیمت پر دستیاب ہوتی ہیں۔ کیا گاؤں اور دیہات میں ملنے والے ضروری اشیائے صرف شہروں کے مقابلے میں کم نہیں ہوا کرتیں۔ گویا اشیا کی قیمتوں کا تعین بھی علاقے میں رہنے والوں کی اوسط قوت خرید کے لحاظ سے ہی طے کیا جاتا ہے۔
ہمارے وزیر اعظم ہوں یا وفاقی وزرا، مشیران اور ترجمان، یہ بات غلط نہیں کہتے کہ پاکستان نے ابھی مہنگائی کا منہ ہی کب دیکھا ہے۔ پاکستان اب بھی دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت سستا ملک ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اشیائے ضروریہ ہوں یا ایسی اشیا جن کا تعلق زندگی کے دیگر لوازمات سے ہے اور جن کے بغیر زندگی کی سانسوں کو بصد مشکل سہی، لیکن لیا جا سکتا ہے، قیمتوں کے لحاظ سے دنیا کے بے شمار ممالک سے ارزاں ہیں لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ کہ پاکستان ایک سستا ملک ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ بہت ساری اشیا ہم سے قریب کے کئی ممالک میں بہت ارزاں ہوا کرتی تھیں لیکن کیا وہ ممالک واقعی غریب اور بہر لحاظ سستے ممالک تھے؟۔ سستا اور مہنگا ملک ہونے کا تعلق وہاں کے عوام کی اوسط آمدنیوں سے ہوا کرتا ہے۔ آمدنی کا دوسرا نام ’’قوت خرید‘‘ کہلاتا ہے۔ یہ قوت خرید گاؤں والوں کی نسبت شہر والوں کی اور دیہات والوں سے زیادہ گاؤں والوں کی ہوا کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دیہات کے بازار گاؤں والوں سے اور گاؤں کے بازار شہر والوں سے سستے ہوا کرتے ہیں۔ بے شک پاکستان دنیا کے بے شمار ممالک سے اس مہنگائی کے دور میں بھی بہت سستا ہوگا لیکن کیا پاکستان کے سستا ہونے کی مثال جن جن ممالک سے دی جاتی ہے وہاں کا شہری پاکستانی شہری کے مقابلے میں زیادہ غربت کا شکار ہے۔
پاکستان میں ان افراد کو مہنگائی کیسے نظر آ سکتی ہے جن کے پاس جائز اور ناجائز دولت کی ریل پیل ہو، یہ تو ان لوگوں سے پوچھیں جن کو مہنگائی نے زندگی سے اتنا بیزار کر دیا ہے کہ وہ اپنے پورے خاندان سمیت اجتماعی خود کشیاں کرنے پر مجبور ہوتے جا رہے ہیں۔