’’گوادر کو حق دو‘‘ تحریک کی کامیابی

426

الحمد للہ! حکومت نے ’’گوادر کو حق دو‘‘ تحریک کے مطالبات تسلیم کر لیے ہیں وزیر اعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو نے دھرنے کے مقام پر پہنچ کر تحریک کے قائدین سے مذاکرات کیے جن کی کامیابی کے بعد فریقین میں معاہدہ ہو گیا اور دھرنا اکتیس روز بعد ختم کر دیا گیا وزیر اعلیٰ عبدالقدوس بزنجو اور تحریک کے سربراہ، جماعت اسلامی بلوچستان کے سیکرٹری جنرل مولانا ہدایت الرحمن نے معاہدے پر دستخط کیے، ڈپٹی کمشنر نے معاہدہ پڑھ کر سنایا جس کے تحت حکومت نے تحریک کے تمام مطالبات تسلیم کر لیے ہیں۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان نے اس موقع پر دھرنا میں شریک عفت مآب خواتین سے بھی ملاقات کی جنہوں نے بلوچستان کے پسماندہ خطے کے حقیقی مسائل کے حل کے لیے باوقار انداز میں تحریک کا حصہ بن کر صوبے کی تاریخ میں نئے باب کا اضافہ کیا اور یہ ثابت کیا ہے کہ زندگی کی جدوجہد میں حصہ لینے کے لیے شریعت کے دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے خواتین پردے اور دیگر شرعی حدود کی خلاف ورزی کیے بغیر بھی اپنا متحرک اور فعال کردار موثر انداز میں ادا کر سکتی ہیں، وزیر اعلیٰ عبدالقدوس بزنجو نے اس موقع پر اپنے خطاب میں تسلیم کیا کہ دھرنے کی صورت میں شرکاء نے جو مطالبات حکمرانوں کے سامنے رکھے وہ بالکل جائز تھے، انہوں نے اعتراف کیا کہ سرحدی تجارت کی اجازت ہونی چاہیے ہم روز گار دے نہیں سکتے تو چھیننا بھی ناجائز ہے، ہم ماہی گیروں کو پیکیج دیں گے تاکہ وہ اپنی کشتیاں بنا سکیں، مظاہرین کے مطالبہ کے مطابق گروک پسنی روڈ کی تعمیر پر جلد کام شروع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے واضح کیا کہ ٹرالروں کے ذریعے غیر قانونی ماہی گیری پر پابندی لگا دی گئی ہے غیر قانونی ٹرالنگ کی روک تھام کے لیے محکمہ ماہی گیری اور کمشنر مکران کو ہدایات دے گئی ہیں قبل ازیں ’’گوادر کو حق دو‘‘ تحریک کے سربراہ سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی بلوچستان مولانا ہدایت الرحمن نے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ حکومت نے ہمارے بیش تر مطالبات تسلیم کر لیے ہیں جب کہ کئی پر پیش رفت شروع ہو گئی ہے۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ غیر قانونی ماہی گیری کا تھا، جس پر حکومت نے بلوچستان کے ساحل سے 30 ناٹیکل میل کی حدود میں ٹرالنگ یعنی بڑی کشتیوں اور ممنوع جالوں کے ذریعے مچھلی کے شکار پر پابندی لگانے کے لیے قانون سازی کرنے کا وعدہ کیا ہے، اس سلسلے میں بلوچستان سی فشریز ایکٹ میں ترمیم کی جائے گی۔ حکومت غیر قانونی شکار روکنے کے لیے مشترکہ گشتی ٹیمیں بنائے گی، جن میں ماہی گیروں کے نمائندے بھی شامل ہوں گے۔ گوادر اور گرد ونواح میں اسپتالوں، اسکولوں اور دیگر عمارتوں میں قائم 200 سے زائد چیک پوسٹیں ختم کر دی گئی ہیں، دیگر چیک پوسٹوں سے متعلق اہل علاقہ کی رائے مد نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کیا جائے گا۔ حکومت نے ایران کے ساتھ مقامی سطح پر اشیائے ضرورت کی تجارت کی بحالی کے لیے ایک ماہ کی مہلت مانگی ہے۔ دوسری جانب وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے گوادر میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں بتایا کہ گزشتہ مالی سال کے دوران بلوچستان میں 59 ارب روپے کے ترقیاتی کام ہوئے، ایران سے مزید بجلی خریدنے کے لیے معاہدہ کیا جائے گا، 3 ہزار 216 گھروں کے لیے سولر یونٹ دیں گے، اضافی چیک پوسٹیں ختم کر دی گئی ہیں، ایکسپریس وے سے متاثرہ علاقوں میں ڈیڑھ ارب کی لاگت سے 3 پل بنائے جا رہے ہیں، جنوبی بلوچستان پیکیج کے 161 میں سے 139 منصوبوں کی منظوری ہو چکی ہے۔ گوادر میں دو ڈیم سبت اور شادی کوڈ ڈیم مکمل کیے جا چکے تاہم پانی کی فراہمی کا نظام بہتر نہیں جس میں جون تک واضح بہتری آئے گی۔ بجلی کے مسئلے پر کیسکو سے معاہدہ قریباً طے پا گیا ہے، 2023ء میں 100 میگاواٹ بجلی گوادر کو دی جائے گی۔ 3 ہزار 216 گھروں کے لیے چینی سولر یونٹ جنوری تک پہنچ جائیں گے، جن کی تنصیب مارچ تک ہو جائے گی۔ گوادر میں 150 بستروں کا اسپتال بنانے کا 20 فی صد کام مکمل ہو چکا، آئندہ 30 دنوں میں اسپتال فعال کرنے کے طریقہ کار کا فیصلہ کیا جائے گا۔ کامیاب جوان پروگرام کے تحت ماہی گیروں کو سستے قرضے دیں گے۔ گوادر یونیورسٹی میں وائس چانسلر تعینات کر دیا۔ بارڈر کراسنگ مقامات میں اضافے پر غور کیا جائے گا، تین سرحدی مارکیٹوں کے قیام کے لیے فنڈز جاری کر دیے ہیں۔ دھرنے کے کئی مطالبے اٹھنے سے پہلے پورے کیے، باقی وعدے بھی پورے کر دیے جائیں گے۔ دھرنا ختم کیے جانے سے قبل بلوچستان کے صوبائی وزیر ظہور بلیدی نے تین نوٹیفکیشن ’’گوادر کو حق دو‘‘ تحریک کے قائد مولانا ہدایت الرحمن کے حوالے کیے مولانا کا نام فورتھ شیڈول سے خارج کرنے کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے۔ حکومت کی جانب سے ’’گوادر کو حق دو‘‘ تحریک کے مطالبات تسلیم کیا جانا یقینا ایک مثبت رویے کا ایک خوش آئند اور باعث اطمینان اقدام ہے جس کا ملک بھر میں خیر مقدم بھی کیا جائے گا اور ملک کی مجموعی سیاسی فضا پر بھی اس کے اچھے اثرات مرتب ہوں گے تاہم اس مرحلہ پر ارباب اقتدار کو اس جانب توجہ دلانا بے جا نہ ہو گا کہ کیا ہی اچھا ہو کہ مسائل میں گھرے لوگوں کے حقوق ان کو کسی بدمزگی اور حالات کی خرابی سے قبل ہی دے دیے جائیں اور انہیں احتجاج کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور نہ کیا جائے، جیسا کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو نے خود اعتراف کیا ہے کہ مولانا ہدایت الرحمن اور ان کے ہمراہ ’’گوادر کو حق دو‘‘ تحریک میں احتجاجی دھرنا دینے والوں کے تمام مطالبات جائز تھے اور حکومت نے ان سب کو تسلیم کر لیا ہے، سوال یہ ہے کہ جب حکومت یہ مانتی ہے کہ ’’گوادر کو حق دو‘‘ تحریک کے تمام مطالبات جائز تھے اور تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمن اور ان کے ساتھیوں کا موقف درست اور مبنی برحق تھا تو آخر اس امر کا جواز کیا تھا کہ انہیں شدید سردی کے اس موسم میں ایک ماہ تک عفت مآب خواتین کے ہمراہ کھلی فضا میں دھرنے کی اذیتیں برداشت کرنے پر مجبور کیا گیا اور کشیدگی کا ماحول پروان چڑھایا گیا حتیٰ کہ مولانا ہدایت الرحمن جیسے معقول، مخلص، بے لوث اور سرتاپا محب وطن رہنما کا نام فورتھ شیڈول میں شامل کر کے دھرنے کے شرکاء اور صوبے بھر کے دین سے محبت کرنے والے لوگوں کو مشتعل کرنے کا سامان کیا گیا تاہم مولانا ہدایت الرحمن اور ان کے چاہنے والوں نے دور اندیشی اور تدبر کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی تحریک کو اشتعال سے محفوظ رکھا اور اپنی تمام تر توجہ پر امن احتجاج کے ذریعے اپنے جائز حقوق کے حصول پر مرکوز رکھی جس کے نتیجے میں آخر کامیابی نے ان کے قدم چومے۔ ’’گوادر کو حق دو‘‘ تحریک کی اس شاندار کامیابی میں ملک کے دیگر مظلوم طبقات اور مہنگائی، غربت، بے روز گاری اور دیگر گونا گوں مسائل سے دو چار عوام کے لیے بھی واضح پیغام ہے کہ اگر وہ اپنے مسائل کا حل اور مصائب سے نجات چاہتے ہیں تو آئندہ بلدیاتی اور عام انتخابات میں مولانا ہدایت الرحمن جیسی مخلص بے لوث اور امانت و دیانت کی پیکر قیادت کا انتخاب کریں تاکہ انہیں بعد میں پچھتانا نہ پڑے۔