عدالت عظمیٰ نے 16 ہزار برطرف سرکاری ملازمین کو بحال کردیا

516
اسلام آباد: نوکریوں کی بحالی کے فیصلے کے بعد عدالت عظمیٰ کے باہر ملازمین خوشی کااظہار کررہے ہیں

اسلام آباد(صباح نیوز)عدالت عظمیٰ نے 1996ء سے1999ء تک تمام برطرف شدہ 16ہزار سے زائدسرکاری ملازمین کو بحال کرتے ہوئے نظرثانی اپیلیں خارج کر دیں ۔عدالت نے کہا ہے کہ ان ملازمین کو بحال کیا جائے جن کے لیے ٹیسٹ یا انٹرویوز ضروری نہیں تھے،جتنا عرصہ ملازمین برطرف رہے وہ عرصہ چھٹی تصور کیا جائے گا، گریڈ 8 سے 16 تک کے جن ملازمین کے لیے ٹیسٹ انٹرویو درکار تھے وہ اب دیں گے تاہم مس کنڈکٹ اورکرپشن پر نکالے گئے ملازمین بحال نہیں ہوں گے ۔عدالت نے فیصلہ چار ، ایک کے تناسب سے جاری کیا ہے۔ جسٹس سید منصور علی شاہ نے لارجر بینچ کے فیصلے سے اختلاف کیا ہے۔ عدالت کی جانب سے مختصر فیصلہ جاری کیاگیا ہے جبکہ تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔ وفاقی حکومت اور16ہزارسے برطرف شدہ ملازمین نے 17اگست2021کے عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواستیں دائر کی تھیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میںجسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس قاضی محمد امین احمد اور جسٹس امین الدین خان پر مشتمل 5رکنی لارجر بینچ نے وفاقی حکومت اور برطرف شدہ ملازمین کی جانب سے 146دائر درخواستوں پر متعدد ہفتے سماعت کی اور جمعہ کے روز اپنا مختصر فیصلہ سنایا۔ جسٹس عمر عطابندیا ل نے فیصلہ پڑھ کر سنایا۔ عدالت نے سیکڈایمپلائز ایکٹ 2010ء کے قانون کو کالعدم قراردینے کا عدالت عظمیٰ کے 3رکنی بینچ کا فیصلہ برقراررکھا ہے۔ جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں جسٹس قاضی محمد امین احمد اور جسٹس امین الدین خان نے ء 2010کے ملازمین کے بحال کرنے کے قانون کو کالعدم قراردیتے ہوئے 16ہزار سے زائد ملازمین کو برطرف کردیا تھا۔ جسٹس عمر عطابندیال کا کہنا تھا کہ آئین کا ایک تقدس ہے جس کے تحفظ کی ذمے داری ہم پر ہے، کوئی ایسا فیصلہ نہیں دے سکتے جو آئین اور قانون سے متصادم ہو۔ جسٹس عمر عطابندیال کا کہنا تھا کہ ملازمین کے مسائل ایک انسانی ہمدردی کا معاملہ ہے، حکومت انسانی پہلو سے متعلق جو ریلیف دینا چاہے اسے اختیارہے۔ جسٹس عمر عطابندیال کا کہنا تھا کہ یقینی بنائیں گے کہ کوئی چوردروازے سے سرکاری اداروں میں داخل نہ ہو، کسی نااہل شخص کو سرکاری ملازمت کا اہل قرارنہیں دیا جاسکتا۔جسٹس منصور علی شاہ نے اختلافی نوٹ میں نظرثانی اپیلیں منظور کرلیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اختلافی نوٹ میں کہا کہ پارلیمانی نظام حکومت میں پارلیمان سپریم ہے، ایکٹ آف پارلیمنٹ کی شق 4 آئین سے متصادم ہے، مضبوط جمہوری نظام میں پارلیمان ہی سپریم ہوتا ہے، پارلیمنٹ کو نیچا دکھانا جمہوریت کو نیچا دکھانے کے مترادف ہے، سیکشن 4اور سیکشن 10 آئین سے متصادم ہے جس کا جائزہ لینا چاہیے۔ فیصلے کے بعد عدالت عظمیٰ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سرکاری ملازمین کے وکیل نے عدالتی فیصلے کو ایک بڑی کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا کہ معزز عدالت نے سرکاری ملازمین کو اسی تاریخ سے بحال کرنے کا کہا ہے جس سے انہیں برخاست کیا گیا تھا۔سرکاری ملازمین کے وکیل کا یہ بھی کہنا تھا کہ معزز عدالت نے 16 ہزار ملازمین کو بحال کر کے ایک بڑا انسانی المیہ رونما ہونے سے بچا لیا ہے، یہ ان سب لوگوں کی کامیابی ہے جنہوں نے اس مشکل گھڑی میں صبر اور ہمت سے کام لیا۔