وہ دن میں اب تک نہیں بھلا سکا جب 24 اکتوبر 1954 کو دستور ساز اسمبلی کی تنسیخ کے بارے میں گورنر جنرل غلام محمد کے اقدام کے سامنے تمام سیاست دان دم بخود بے بسی کی تصویر بن کر رہ گئے تھے۔ لیکن دستور ساز اسمبلی کے اسپیکر مولوی تمیز الدین خان نے جو قدرے دبو اورکمزور مانے جاتے تھے بڑی دلیری کا مظاہرہ کیا اور گورنر جنرل کے اس اقدام کو سندھ چیف کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا۔ مولوی صاحب کو خطرہ تھا کہ گورنر جنرل کے اہل کار انہیں عدالت میں جانے سے روکیں گے اس لیے مولوی صاحب برقع پہن کر سندھ چیف کورٹ آئے ان کے اس اقدام کو دلیری سے تعبیر کیا گیا تھا۔ ویسے آزاد پاکستان پارٹی کے بانی میاں افتخار الدین نے مقدمہ کے لیے بھر پور معاونت کی۔
اس مقدمہ کی سماعت کے دوران ہم چند صحافی سندھ چیف کورٹ کی کینٹین میں چائے پی رہے تھے کہ وہاں سے وزیر تجار ت فضل الرحمن گزرے۔ ان کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا اور بہت با خبر مانے جاتے تھے۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ اب حالات کس سمت جائیں گے؟ انہوں بلا کسی توقف کے کہا کہ اب پاکستان ٹوٹ جائے گا۔ ہم سب احتجاجاً اٹھ کھڑے ہوئے ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ابھی جب کہ پاکستان کو معرض وجود میں صرف سات برس ہوئے تھے کوئی اس کے ٹوٹنے کی بات کرے گا۔ ڈان کے نامہ نگار مشیر حسن نے سخت رد عمل کا اظہار کیا۔ اس پر فضل الرحمن صاحب نے کہا کہ آپ نے میری رائے مانگی تھی اس کے حق میں میری دلیل بھی سن لیجیے۔ ایک لمحے کے لیے سب ان کی جانب متوجہ ہوئے۔ فضل الرحمن صاحب نے کہا کہ گورنر جنرل نے دستور ساز اسمبلی کی تنسیخ کا جو اقدام کیا ہے وہ بے حد اہم ہے اور خطرات سے بھرپور ہے۔ یہ اقدام فوج کی عمل داری کا آغاز ہے۔ اور فوج کی اکثریت چونکہ مغربی پاکستان سے ہے اس لیے مشرقی پاکستان کے عوام یہ سمجھیں گے کہ ان پر مغربی پاکستان سے حکومت کی جارہی ہے اور وہ یہ صورت حال برداشت نہیں کریں گے اور وہ پاکستان سے الگ ہو جائیں گے اور ملک ٹوٹ جائے گا۔ اس وقت یہ تجزیہ سن کر دل دہل گیا۔
بہت جلد یہ انکشاف ہوا کہ اس زمانے میں زیورخ میں ایک پلان بنا تھا جس کا مقصد مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے درمیان توازن کرنا تھا اور اس کے لیے مغربی پاکستان کے صوبوں کو تحلیل کر کے ایک یونٹ بنانا تھا۔ سب واقف ہیں کہ ایک یونٹ کی تشکیل کے لیے کیسے کیسے حربے استعمال کیے گئے۔ ایک یونٹ کی تشکیل کے بعد ملک دو علاحدہ یونٹوں میں تقسیم ہو گیا۔ یہ غلط نہیں کہ غلام محمد، اسکندر مرزا اور ایوب خان کی ملی بگھت نے پاکستان میں فوجی امریت کا دروازہ کھولا۔