عدالت عظمیٰ،16 ہزار ملازمین کی بحالی کی تجاویز پیش

259

اسلام آباد(خبر ایجنسیاں) اٹارنی جنرل نے برطرف ملازمین سے متعلق تجاویز عدالت میں پیش کر دیں۔سپریم کورٹ میں 16 ہزار برطرف ملازمین کی بحالی کے کیس کی سماعت ہوئی۔وفاقی حکومت نے ملازمین کی بحالی سے متعلق تجاویز عدالت میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ 1 تا 7 گریڈ تک کے ملازمین کو بحال کر دیا جائے، گریڈ 8 تا 17 تک ملازمین کو پبلک سروس ٹیسٹ سے گزرنا ہو گا، یہ عمل تین ماہ میں مکمل ہو گا، ملازمین کی ماضی کی سروس ایڈ ہاک تصور ہو گی، جو ملازمین ریٹائر ہو گئے یا جن کا انتقال ہوگئے ، انکے معاملات ماضی کا حصہ تصور کیے جائیں گے۔تجاویز میں کہا گیا کہ دوران ملازمت انتقال کرنے والے ملازمین اور انکے ورثا پینشن کے حقدار نہیں ہونگے۔ گریڈ 8 سے17 تک کے ملازمین کے تین ماہ میں ٹیسٹ لیے جائیں گے، فیڈرل پبلک سروس کمیشن کا ٹیسٹ پاس کرنے والے ملازمین کو مستقل کر دیا جائے گا۔حکومتی تجاویز میں کہا گیا کہ جو ملازمین بحال ہوتے ہی پنشن لے رہے ہیں انہیں مزید پنشن نہیں ملے گی، ملازمین کو جو رقم دی جا چکی وہ ریکور نہیں کی جائے گی، تین ماہ میں فیڈرل پبلک سروس کمیشن ملازمین کے ٹیسٹ کا عمل مکمل کرے گا، جب تک ملازمین کو ایڈہاک تصور کیا جائے گا۔اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وزیراعظم سے مشاورت کرکے تجاویز عدالت کو دے رہا ہوں۔اس دوران جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ کرپشن پر نکالے گئے ملازمین کو پارلیمنٹ کیسے بحال کر سکتی ہے،بحالی کے قانون میں کرپشن پر نکالے گئے ملازمین کو تحفظ حاصل نہیں تھا،جمہوری نظام میں قانون سازی پارلیمنٹ کے ذریعے ہوتی ہے،پارلیمنٹ سپریم ہے، آرڈیننس کا دائرہ محدود ہوتا ہے،انتہائی ضروری حالات میں فوری ضرورت کے تحت ہی آرڈیننس آ سکتا ہے، مارشل لاء دور کے علاوہ ہر آرڈیننس کے بعد ایکٹ آف پارلیمنٹ آتا ہے، آرڈیننس کے تحت بحال ملازمین کو ایکٹ میں تحفظ نہیں دیا گیا، آرڈیننس کے تحت 2009 میں بحال ہونے والے اب تک کیسے برقرار رہ سکتے۔جسٹس قاضی امین نے اس موقع پر ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ نے کسی ملازم کو برطرف کرنے کا حکم نہیں دیا تھا،عدالت نے ماضی کے اصولوں پر چلتے ہوئے قانون کالعدم قرار دیا تھا،جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آرڈیننس کے ذریعے حکومت عارضی قانون سازی کر سکتی ہے،قانون سازی کرنا آئین کے تحت پارلیمنٹ کا ہی اختیار ہے،حکومتی اقدامات میں شفافیت ہونی چاہیے۔جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ تجاویز پر غور کرکے کل اپنی رائے دینگے۔سپریم کورٹ نے سماعت آج تک ملتوی کردی۔a