بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ غربت کی شرح 71 فی صد ہے۔ 86 فی صد دیہی آبادی خط ِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ بیروزگاری کی شرح 90 فی صد ہے جبکہ گزشتہ 15 سال سے یومیہ فی کس آمدنی ایک ڈالر یعنی 175 روپے سے بھی کم ہے۔ بنیادی سہولتوں کے فقدان کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے۔ صوبے کے ایک کروڑ 24 لاکھ عوام کے لیے سرکاری اسپتالوں میں کْل 7797 بستر (Beds) دستیاب ہیں یعنی 1590 افراد کے لیے اسپتالوں میں صرف ایک بستر دستیاب ہے۔ جبکہ صوبہ بھر میں 947ہائی اسکولز، 97 کالجز اور 8 یونیورسٹیاں ہیں۔ 70 فی صد سے زیادہ بچے اسکول نہیں جاتے۔
سوچنے کا مقام ہے کہ دنیا کے قدرتی گیس کے ذخائر کا پانچواں حصہ سوئی کے مقام سے نکلتا ہے سوئی سے روزانہ نکالی جانے والی 363 ملین مکعب فٹ قدرتی گیس پورے بلوچستان کے عوام کو میسر نہیں۔ قومی پیداوار کا 90 فی صد بادام، انگور، چیری اور دیگر ڈرائی فروٹس بلوچستان پیدا کرتا ہے۔ یہاں معدنیات، سونے اور تانبے کے بھاری ذخائر ہیں جن سے ابھی تک فائدہ نہیں اْٹھایا گیا۔ بلوچستان میں 25 لاکھ سے زائد تنومند نوجوان ہیں لیکن انسانی سرمایہ بھی بے روزگاری اور محرومی کا شکار ہے۔ گزشتہ74 سال میں سول اور فوجی حکومتوں نے بلوچستان میں پینے کے صاف پانی سمیت کسی مسئلے کے حل کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہیں اْٹھایا۔ پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت نے بھی بلوچستان کو مفاد پرستوں کے رحم و کرم پرچھوڑ دیا ہے۔ جس کی وجہ سے بلوچستان بدترین پسماندگی اور کرپشن کا شکار ہے۔
بلوچستان کا اصل مسئلہ حقیقی (Genuine) لیڈر شپ کا موجود نہ ہونا ہے حقیقی لیڈر شپ کو اْبھرنے نہیں دیا گیا۔ ایسے کٹھ پتلی حکمران سامنے لائے گئے جو اپنا ذاتی مفاد سمیٹ کر باری باری رخصت ہوتے گئے۔ سرمایہ داروں، سرداروں اور قوم پرستوں نے مقتدر قوتوں سے ساز باز کر کے ایک گٹھ جوڑ بنا رکھا ہے۔ جس کے نتیجے میں احساس محرومی اور ناراضی نے جنم لیا ہے۔ افسوس کہ اْنہیں ’’ناراض بلوچ‘‘ کہا جاتا ہے۔ بلوچستان کے اکثر حصوں میں حکمرانوں سے ناراضی پائی جاتی ہے مگر ناراض بلوچ علاقوں میں سے ایک ضلع ’’گوادر‘‘ ہے جو چائنا پاک اقتصادی راہداری (CPEC) کی وجہ سے بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ گوادر آج بھی پینے کے صاف پانی، صحت، تعلیم، روزگار اور بجلی جیسی بنیادی ضروریات سے محروم ہے۔ جگہ جگہ چیک پوسٹوں نے ایک طویل عرصے سے عوام میں بے چینی اور غصہ پیدا کیا ہے۔ عام آدمی، نوجوان، بچے اور مرد وخواتین نے جماعت اسلامی کے رہنما مولانا ہدایت الرحمن بلوچ کی قیادت میں اپنے حقوق کے حصول کے لیے دھرنا دے رکھا ہے، مگر حکومت ِ وقت اْن کی آواز نہیں سْن رہی۔ اب اس عوامی احتجاج میں شدت آگئی ہے۔
گوادر کی آبادی کی اکثریت کے روزگار کا دارومدار ماہی گیری اور سرحدی تجارت پر ہے۔ 40 ہزار لوگ براہ راست اور 80 ہزار بالواسطہ ماہی گیری کے پیشے سے منسلک ہیں۔ ماہی گیر اپنی 13ہزار سے زائد کشتیوں کے ذریعے کھلے سمندر میں مچھلیاں پکڑ کر اپنے خاندان کا پیٹ پالتے ہیں لیکن بڑی کمپنیوں کے جدید ٹیکنالوجی سے لیس ٹرالروں کو حکومت کی جانب سے ماہی گیری کی اجازت دینے سے اْن کی ماہانہ آمدن 40 ہزار روپے سے گھٹ کر 15 ہزار روپے سے بھی کم رہ گئی ہے۔ ان جدید ٹرالوں کے پاس ایسے جال ہیں جو نہ صرف نایاب مچھلیوں کا شکار کرتے ہیں بلکہ مبینہ طور پر سمندری حیات کی نسل کشی بھی کر رہے ہیں یہ کمپنیاں مقامی مچھیروں کو کام نہیں کرنے دیتیں اور اْن کی کشتیاں قبضہ میں لے لیتی ہیں۔ عوام پینے کے صاف پانی جیسی بنیادی سہولت سے محروم ہیں۔ 2013ء کی خشک سالی کے بعد گوادر میں پینے کے صاف پانی کی قلت کا مسئلہ اب سنگین شکل اختیار کرچکا ہے۔ گزشتہ اور موجودہ حکومتوں نے اس بنیادی مسئلے کو سنجیدگی سے حل کرنے کی کوشش نہیں کی جس کی وجہ سے آج گوادر کے لوگ وہ پانی پی رہے ہیں جو جانوروں کے پینے کے قابل بھی نہیں ہے۔ گوادر شہر کی اقتصادی ترقی کی شاہراہ اندھیروں میں ڈوبی ہوئی ہے۔ مکران ڈویژن کے اضلاع گوادر، کیچ اور پنجگور کو ابھی تک نیشنل گرڈ اسٹیشن سے منسلک نہیں کیا گیا۔ گوادر کو برادر اسلامی ملک ایران 100 میگا واٹ بجلی فراہم کرتا ہے اس کے باوجود گوادر میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 16 گھنٹے ہوتا ہے۔ جس چیز نے گوادر کے عوام میں شدید غم وغصہ پیدا کیا ہے، وہ اْن کی عزتِ نفس کا مسئلہ ہے۔ جگہ جگہ چیک پوسٹیں روزانہ خواتین و حضرات کو سیکورٹی کے نام پر ذلیل کرتی ہیں یہاں تک کے اسپتال اور کاروبار کے لیے آتے جاتے ایک ایک چیک پوسٹ پر گھنٹوں گھنٹوں اپنی شناخت ثابت کرنا پڑتی ہے۔ اسی طرح جبری گمشدگی کے مسئلے نے بھی پورے علاقے میں خوف و ہراس پیدا کر رکھا ہے۔
’’گوادر کو حق دو‘‘ ایک مقامی تحریک (Indigenous movement) ہے جس کی قیادت جماعت اسلامی کے رہنما مولانا ہدایت الرحمن بلوچ کررہے ہیں لیکن اس تحریک میں دیگر جماعتیں اور تنظیمیں بھی شامل ہیں۔ حکومت نے مولانا ہدایت الرحمن اور احتجاجی تحریک کے کارکنوں پر مقدمات قائم کیے اور اْن کو فورتھ شیڈول میں ڈال دیا جو دہشت گردوں کی فہرست سمجھا جاتا ہے۔ خوش قسمتی سے احتجاجی تحریک پْرامن اور آئینی حدود کے اندر ہے۔ اْن کے پاس اسلحہ، بارود یا ڈنڈے نہیں ہیں، اْنہوں نے کسی پولیس والے یا سیکورٹی ایجنسی پر حملہ نہیں کیا، املاک کو نقصان نہیں پہنچایا بلکہ عوام کے حقیقی مسائل کے لیے توانا آواز اٹھائی ہے جو اْن کا آئینی و قانونی حق ہے۔
جبری گمشدگی ایک قومی مسئلہ ہے۔ اس پر عدالت عظمیٰ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور انسانی حقوق کی قومی اور عالمی تنظیمیں بھی ماتم کناں ہیں۔ گمشدہ افراد کی بازیابی، روزگار کا مطالبہ، ماہی گیروں کو سمندر سے بے دخلی کرنے پر احتجاج، مچھیروں کی کشتیاں واپس کرنے کا مطالبہ، سیکورٹی کے نام پر عوام کی تذلیل بند کرنے کا مطالبہ، شراب خانوں اور منشیات کے کاروبار بند کرنے کا مطالبہ، تعلیم کے لیے یونیورسٹی، سرحدی تجارت کی بحالی اور ناجائز جعلی ادویات کے خاتمے کا مطالبہ، مقامی لوگوں کو کمپنیوں میں ملازمت میں ترجیح دینا اور ساحل سمندر پر رہنے والے پاکستانیوں کے لیے پینے کے صاف پانی کا مطالبہ دہشت گردی یا انتہا پسندی نہیں ہے اور نہ ہی یہ تحریک سی پیک کے خلاف ہے۔ اس کے روح رواں واضح اعلان کر چکے ہیں کہ سی پیک پاکستان اور بلوچستان کی خوشحالی کا دروازہ (گیٹ وے ) ہے۔ کوئی محب وطن سی پیک کی مخالفت نہیں کر سکتا۔ مولانا ہدایت الرحمن اپنے آپ کو پاکستانی بلوچ کہتے ہیں اور پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہیں۔ اْن کی تحریک کو ملک کے طول و عرض کے ساتھ ساتھ اب عالمی رائے عامہ کی حمایت بھی حاصل ہوگئی ہے۔ اس لیے حکومت فی الفور سنجیدگی سے گوادر تحریک کے قائدین کے ساتھ مذاکرات شروع کرے اور مقامی آبادی کو مطمئن، خوشحال اور مسرور کرے۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق اور نائب امیر جماعت لیاقت بلوچ نے گوادر اور کوئٹہ کا دورہ کرکے گوادر تحریک اور صوبائی حکومت کو سنجیدہ اور نتیجہ خیزمذاکرات کرنے کا مشورہ دیا ہے۔
اہلِ سمندر کے عہد و پیما کو سنو
پھر حق دے کے گوادر کو سنو
اہلِ وطن کو اب بھی ہے اْمید اصغر
نعرۂ مستاں زندہ باد پاکستان سنو