اپنوں کی ہٹ دھرمی اسلام سے انحراف ،آمریت پر انحصار سقوط ڈھاکا کا سبب بنا

580

کراچی (رپورٹ: محمد علی فاروق) اپنوں کی ہٹ دھرمی ‘اسلام سے انحراف ‘ آمریت پر انحصار سقوط ڈھاکا کا سبب بنا ‘ بھارت ،روس اورمغرب نے سازشیں کیں‘ مارشل لا حکام کاقومی اسمبلی کے بجائے دستور ساز اسمبلی کا الیکشن کرانیکا فیصلہ غلط تھا‘مولانا مودودی، چودھری محمدعلی ودیگرنے مخالفت کی‘عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں زبردست دھاندلی کی‘ بھٹونے اُدھر تم اور اِدھر ہم کا نعرہ لگا دیا‘دونوں نے اقتدار کے لیے ملک توڑ دیا۔ ان خیالات کا اظہار کتاب سانحہ سقوط ڈھاکا کے مصنف، رسالہ ترجمان القرآن کے نائب مدیر سلیم منصور خالد اورمعروف دفاعی تجزیہ کار ریٹائرڈ کرنل اسد محمود نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ’’ سقوط ڈھاکا کے اسباب کیا ہیں ؟‘‘ سلیم منصور خالد نے کہا کہ 16 دسمبر1971ء کو مشرقی پاکستان کے بنگلا دیش بننے میں داخلی اور خارجی اسباب کا دخل تھا‘ ان میں سیاسی سطح پر بے تدبیری ‘ انتظامی درجے میں رعونت‘ ذرائع ابلاغ پر توجہ نہ دینا‘ معاشی حکمت عملی کا فقدان‘ جمہوری اقدار کو نظر انداز کرنا‘ تعلیم وتربیت پر توجہ نہ دینا‘ جہموریت کے بجائے آمریت پر انحصار کرنا‘ آئین اور قانون کی بے قدری کرنا اور اسلام کو محض نعرے بازی تک محدود رکھنا شامل ہیں یہ وہ بڑے بڑے مرکزی موضوعات جنہو ں نے پاکستان کی قومی وحدت کو شکست وریخت سے دوچار کیا‘ افسوس کہ آج بھی پاکستان کو داخلی سطح پر انہی مسائل کا سامنا ہے۔ سلیم منصور خالد نے کہا کہ جہاں تک بیرونی عوامل کا تعلق ہے تو بھارت نے پہلے روز سے ہی پاکستان کو تسلیم نہیں کیا تھا‘ قیام پاکستان کے پہلے دو چار ماہ کے اندر ہی مشرقی پاکستان میں بھارت کا آپریشن شروع ہوگیا‘ جس کے تحت مسلم لیگ کو توڑ کر پہلے عوامی مسلم لیگ بنوائی گئی اور پھر اس میں سے لفظ مسلم بھی نکلوا کر عوامی لیگ بنا دی گی جس نے جھوٹے پروپیگنڈے پر انحصار کر کے بنگلا قوم پرستی کا زہر گھولا اور پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے پنجابی حاکمیت کا نعرہ تخلیق کیا جبکہ غیر بنگالیوں کے خلاف نفرت کی آگ کو بھڑکایا گیا‘ بھارت کی اس ہم نوائی میں مغربی اور اشتراکی قوتیں ہم قدم تھیں‘ کیمونسٹ روس اور روسی بلاک تو بالکل کھل کر پاکستان توڑنے کے لیے میدان میں اتر آیا اور مغربی قوتیں منافقت کے ساتھ یہی کام دوسرے انداز میں کرتے ہوئے ایک ہی نکتے پر مرکوز ہوگئیں اور وہ نکتہ تھا کہ پاکستان کو توڑنا ۔ 1962ء میں اگر تلہ سازش کے لیے بھارت پوری قوت سے مشرقی پاکستان میں اپنے تخریبی عناصر کی مدد کر رہا تھا‘ اگرچہ ہمارے ہاں اس سازش کا بھانڈا1967میں پھوٹا لیکن اس سازش کے کر دار اس سے انکار کرتے تھے‘ بنگلادیش بننے کے بعد دنیا کے سامنے بر ملا کہتے نظر آئے کہ ہم 1962ء سے یہ کام کر رہے تھے ۔ سلیم منصور خالد نے کہا کہ 1970ء کے دوران لولے لنگڑے مارشل لا نے مشرقی پاکستان میں بدترین عام انتخابات منعقد کرائے جس کے باعث پورا مشرقی پاکستان عوامی لیگ کا یرغمال بن گیا‘ وہاں کوئی دوسری جماعت جلسہ نہیں کر سکتی تھی‘ نہ کوئی پولنگ اسٹیشن پر یہ سوال اٹھا سکتا تھا کہ ووٹ کے نام پر دھاندلی اور ڈاکا زنی بند کرو‘ اس نوعیت کے نام نہاد عام انتخابات کو جو لوگ پاکستان کا شفاف ترین الیکشن کہتے ہیں ان کی عقل اور دیانت پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے‘ مارشل لا حکام نے قومی اسمبلی کا الیکشن کرانے کے بجائے دستور ساز اسمبلی کا الیکشن کرانے کا اعلان کرکے پاکستان کو توڑنے کی راہ ہموار کی‘ چودھری محمد علی، مولانا مودودی، نوابزادہ نصراللہ خان، مولوی فرید احمد وغیرہ بار بار کہتے رہے کہ 1956ء کا آئین بحال کر کے الیکشن کرایا جائے اور پھر قومی اسمبلی دستور میں حسب ضرورت ترامیم کر لیں مگر مارشل لا حکام اور جی ایچ کیو نے بدترین حماقت کا مظاہرہ کیا اور کہا کہ اگر دستور ساز اسمبلی 120روز میں دستور نہ بنا سکی تو یہ اسمبلی خود بخود ختم ہوجائے گی‘ ایک غیر منتخب اتھارٹی کی طرف سے اس دوسری حماقت نے اسمبلی اجلاس کو بے معنی بنا دیا تھا جس کی وجہ سے ذوالفقار علی بھٹو نے چاہا کہ کانٹے کے مسائل پر اسمبلی اجلاس شروع ہونے سے پہلے ہی تصفیہ کرلیا جائے‘ اصولی طور پر دل کو لگتی بات ہونے کے باوجود ان کی یہ خواہش اس وقت سازش میں ڈھل گئی ، جب وہ ایسی باتیں کرتے وقت جی ایچ کیو سے رابطہ کرتے اور للکارتے نظر آتے ‘ عوامی لیگ نے یکم مارچ سے25 مارچ1971ء کے دوران غیر بنگالیوں، جن میں اردو بولنے والوں کے علاوہ پنجابی، سندھی اور پٹھان ہم وطن شامل تھے ان کی قتل و غارت شروع کی ‘ املاک کو لوٹا، عورتوں کی بے حرمتی کی‘ گھر وں اور فیکٹریوں اور دکانوں کو لوٹ کر نذر آتش کیا گیا‘ پھر28 مارچ1971ء کو اندرا گاندھی اور بھارتی اپوزیشن نے مشترکہ طور پر بنگلادیش کے قیام کے لیے ہر ممکن تعاون بہم پہنچانے کا اعلان کیا‘ ہم اس المیے کے ذیل میں داخلی پہلوؤں اور خارجی عوامل کو نظر انداز نہیں کر سکتے ، ان دونوں چیزوں نے مل کر ایک خونی طوفان برپا کیا جس میں متحدہ پاکستان ٹوٹ گیا‘ اگرچہ آج بنگلادیش کا جھنڈا، نقشہ اور حکومت موجود ہے مگر فی الحقیقت بنگلا دیش اپنے اقتدار اعلیٰ کی حرمت کے لحاظ سے سری لنکا اور نیپال سے بھی نچلے درجے پر پایا جاتا ہے۔ اسد محمود نے کہا کہ16دسمبر جب بھی آتا ہے میں ایک پاکستانی ہونے کے ناطے اپنے آپ کو بجھا بجھا محسوس کرتا ہوں ‘ 18دسمبر 1971ء کو ہماری اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے پاکستان دولخت ہوگیا اور اسی کے ساتھ 16دسمبر 2014ء کے روز سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور رونما ہوا ، یہ دونوں سانحات تاحیات تکلیف دیتے رہیں گے‘ ایسٹ پاکستان اور ویسٹ پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع دیکھا جائے تو ان دونوں میں فاصلہ ایک ہزار میل کا ہے ‘ مگر ایسٹ پاکستان اور ویسٹ پاکستان دو قومی نظریے کی بنیاد پر بنے ‘ 14 اگست 1947ء سے لے کر 19دسمبر 1971ء تک تقریباً 24 سال میں وہ کچھ ہوا اس پر یقین نہیں آتا کہ یہ سب کچھ کیسے ہوگیا‘ ایسا نہیں تھا کہ ایسٹ پاکستان میں ترقیاتی کام نہیں کرائے گئے تھے یا ویسٹ پاکستان میں زیادہ ترقیاتی کام سر انجا م دیے گے بلکہ اس میں بہت سے عوامل کار فرما تھے میں یہ ضرور کہوں گا کہ 1947ء سے لے کر 1969ء دسمبر تک ملٹری اسٹیبلشمنٹ ملک کو چلاتی رہی‘ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جنرل ایوب خان کے دور میں پاکستان نے بہت زیادہ ترقی کی لیکن انہیںچاہیے تھا کہ دونوں حصوں کو ساتھ لے کر چلتے‘ کسی ایک حصے میں اگر احساس محرومی پیدا ہو رہی ہے تو اس کے خدشات کو دورکیا جانا چاہیے تھا‘ اُس وقت پاکستان میں11 وزرا تھے جن میں سے 9 ویسٹ پاکستان سے جبکہ صرف2 وزرا کا تعلق ایسٹ پاکستان سے تھا‘ ایسٹ پاکستان کی آبادی ویسٹ پاکستان سے زیادہ تھی‘ اس وقت بھی ان کا حصہ زیادہ بنتا تھا‘ آبادی کے لحاظ سے زیادہ لوگ بنگلا زبان بولتے تھے جبکہ ویسٹ پاکستان میں اردو ، سندھی ، پنجابی، بلوچی، پشتو، کشمیری، بلتی، سرائیکی اور دیگر زبانوں کا ایک بہت خوبصورت مجموعہ موجود ہے‘ سب کی زبانیں مختلف تھیں‘ اردو کو ہماری قومی زبان کا درجہ دیا گیا ‘ ایک پرچم کے سائے میں سب ایک تھے ‘ اچانک ون یونٹ کو توڑ دیا گیا‘ مشرقی پاکستان میںفوجی آپریشن ٹھیک انداز میں نہ چلانا، سیاسی قیادت کی خود غرضی، ہنگامہ آرائی، الیکشن میں کامیاب سیاسی جماعت کو اقتدار منتقل نہ کرنا اور اقتدار کے لیے ملک توڑنا یہ سب سے بڑے المیے تھے ‘ ملک میں معاشی حالات خراب ہوگئے ، جس کی بڑی وجہ سیاسی مفادات بنے ، پیپلز پارٹی اور عوامی لیگ کا بھی اس میں بہت بڑا کردارر ہا‘ پیپلز پارٹی کے بانی نے اس معاملے کو اچھے انداز میں نہیں لیا بلکہ انہوں نے کہا کہ جو وہاں جاکر اجلاس میں شرکت کر ے گا اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیںگی‘ دونوں حصے اکٹھے رہتے تو ظاہر ہے بنگالیوں کی اکثریت ہی ہوتی‘ ایسٹ پاکستان کی سیاسی قیادت نے اس معاملے پر منفی رویہ اختیا ر کیا‘ ذوالفقار علی بھٹو نے اُدھر تم اور اِدھر ہم کا نعرہ لگا دیا کیونکہ پیپلز پارٹی کو بخوبی علم تھا کہ اگر دونوں حصے اکٹھے ہوں گے تو پیپلز پارٹی کی حکومت کسی صورت نہیں بن سکتی‘ پاکستان چلانے کے لیے بنیادی اصولوں میں خارجہ، معاشی اور دفاعی پالیسی کو مرکز نے خود چلانا ہوتا ہے‘ شیخ مجیب الرحمن کا کرادر بھی مشکوک تھا‘ 1962ء اور اس سے قبل بھی وہ ہائی کمشنر بھارت سے ملاقاتوں میں وہ اپنے ایجنڈے کو آشکار کرتے رہے تھے جو تاریخ کی کتابوں میں مل جاتا ہے‘ وہ اسی ایجنڈے پر گامزن رہے کہ ہمیں علیحدہ ہونا ہے‘ بھارت کی جانب سے انہیں بھی یہ پیغام دیا گیا تھا کہ آپ اپنی سیاسی پوزیشن مضبوط کریں یہی تمام چیزیں آگے چل کر ملک کو توڑنے کی وجہ بنیں‘ اس وقت کی سیاسی قیادت میں وژن کی بھی بہت کمی تھی‘ انہوں نے معاملات کو اس طرح نہیں چلایا جس طرح چلانے کی ضرورت تھی‘ ملٹری قیادت بھی اس چیز پر گرفت نہ رکھ سکی‘ بھارت نے ایک منظم منصوبے کے تحت بنگالی پناہ گزینوں کے معاملے کو بین الاقوامی سطح پر اچھا ل کر نفرت آمیز مہم چلائی ‘ اس کی آڑ میں چھاپہ مار تنظیم ’’مکتی باہنی‘‘ کے دہشت گردوں کو عسکری تربیت فراہم کی‘ بنگلادیش کا کچھ حصہ چھوڑ کر 444 کلو میٹر طویل سرحد بھارت سے ملتی ہے‘ ان تمام چیزوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے 1971میں بھارت سوا 4 لاکھ فوج اور مکتی باہنی کے2 لاکھ کارندوں کے ساتھ حملہ آور ہوگیا‘ اس وقت پاکستان کی فوج کی مجموعی تعداد 38 ہزار تھی‘ دنیا کی کوئی بھی فوج اس طرح مقابلہ نہیں کر سکتی جب سیاسی اور دفاعی سپورٹ بھی نہ ہو‘ ہم اگر گھر میں کمزور ہوجائیں تو پھر باہر سے دشمن کو بھی موقع مل جاتا ہے ‘میں یہ محسوس کرتا ہوںکہ سیاستدان ، بیوروکریٹس ، ملٹری ، رولنگ پارٹی ، اپوزیشن اور من حیث القوم ہم سب سقوط ڈھاکا یعنی پاکستان کو دولخت کر نے کے ذمے دار ہیں۔