مظفر وارثی کو ہم کہاں کہاں یاد کریں گے، ایک نہیں بلکہ سات عشروں سے قوم ہر سال دسمبر سے بہت گھبراتی آئی ہے کہ ہر گزرا ہوا سال اس کے ضمیر پر بوجھ ڈال رہا ہے کہ قوم نے اس ملک کے لیے کیا کیا؟ جسے ہم نے لاکھوں قربانیاں دے کر حاصل کیا تھا، دل کی تسلی کے لیے ہم کہہ دیتے ہیں کہ ہم دنیا کی ساتویں اور مسلم دنیا کی پہلی ایٹمی قوت ہیں، کھیلوں میں ہمیں نمایاں مقام ملتا رہا ہے، کرکٹ کے عالمی بادشاہ رہے ہیں اور ایک وقت تھا کہ ہاکی کے تمام عالمی اعزاز پاکستان کے پاس تھے، ہمیں دیگر کھیلوں میں طلائی، چاندی اور کانسی کے عالمی تمغے مل چکے ہیں، ملک میں موٹرویز بن رہی ہیں، چینی اور کپڑے کے درجنوں کارخانے ہیں، صنعت چل رہی ہے، ہر شہر میں تعلیمی ادارے ہیں، کامیابی کے قصے بہت سے ہیں، لیکن کیا کیجیے کہ جب ملکی معیشت کو دیکھتے ہیں تو غیر ملکی قرضوں کا بوجھ نظر آتا ہے، ایسا قرض کہ جس کے بغیر ہماری معیشت چل ہی نہیں سکتی اور ایسی مجبوری کہ مسلم دنیا کا بڑا ملک کہتا ہے کہ پیسے تو مل سکتے ہیں مگر شرط یہ ہے کہ آئی ایم ایف کی ہر شرط مانی جائے ایسا نہ ہوا تو ہم اپنے پیسے72 گھنٹوں کے نوٹس پر واپس لے سکتے ہیں، خدا را ایسی معیشت کسی اور ملک کی بھی ہے اس دنیا میں کہ جسے مسلم ملک اس کڑی شرط کے ساتھ قرض دے رہا ہو؟
معیشت ایک جانب رکھ دیں، ملک کا عدالتی نظام دیکھ لیتے ہیں، ایک کیس میں آواز دی جاتی ہے کہ فلاں کیس میں ملزم کہاں ہے، جواب ملتا ہے کہ اسے تو پھانسی بھی دی جاچکی ہے، جب کہ اس کی اپیل ابھی زیر التواء ہوتی ہے، ایسا نظام عدل؟ مجال ہے کسی نے اس بات کی تحقیق کی ہو کہ اعلیٰ ترین عدالت کا حتمی فیصلہ آنے سے قبل پھانسی کیسے ہوگئی؟ کیا یہ واقعہ واقعی پاکستان میں ہوا؟ پاکستان تو ہم نے آئین اور قانون پر عمل داری کے لیے قائم کیا تھا قربانیاں بھی اس لیے دی گئی تھیں، مسلمان گھرانے اپنا سب کچھ چھوڑ کر اس ملک میں آئے تھے کہ ہندو کی غلامی سے نجات مل جائے گی مگر یہ کیا ہوا؟ ہم تو آئی ایم ایف کے غلام بن گئے، مسلم دنیا کی دہلیز پر مجبوری کی تصویر بن کر کھڑے ہوئے کہ ہمیں کچھ دیا جائے کہ ہماری جھولی خالی ہے، قائد اعظم محمد علی جناح نے ہمیں ایک ایسا ملک لے کردیا تھا جہاں پانچ دریا تھے اور پٹ سن کے پہاڑ تھے اور ہم نے کیا کیا؟ یہ سندھ طاس معاہدہ کیا ہے؟ جس نے ہمارے دریا ہی خشک کر دیے، اور یہ کیسی منصوبہ بندی اور سازش تھی کہ ہماری پٹ سن ہی ہم سے چھن گئی اور پلٹن کے میدان میں ہم سب کچھ ہار گئے۔
ہمیں تین غیر جمہوری حکمران ملے، ایک نے کہا کہ آئین بنائوں گا اور پھر اپنے ہی ہاتھوں اپنا بنایا ہوا آئین توڑ دیا، دوسرے نے کہا کہ آئین تو بارہ صفحات کی کتاب ہے، سیاست دان دم ہلاتے میرے پیچھے آئیں گے، تیسرے نے کہا کہ آئین پر عمل کریں تو ریاست خطرے میں چلی جاتی ہے ریاست بچانی ہے تو آئین پر عمل نہیں ہوسکتا، اس ملک کو 13 وزیر اعظم اور پانچ نگران وزیر اعظم ملے، یہ وزیر اعظم پھانسی اور جلاوطنی کا شکار ہوئے، نااہلی ان کا مقدر بنی، عوام نے جنہیں ووٹ دیا وہ عوام کو تحفظ، روزگار، امن، اندورن سلامتی نہیں دے سکے، کراچی کی سڑکوں پر جس بد امنی کا راج تھا وہی بد امنی ایوانوں تک پہنچی، منصب بھی اسے ملے، جس نے قائد اعظم کا استقبال کیا اسے کہا گیا کہ تجھے علم بھی نہیں ہوگا کہ گولی کدھر سے آئی؟
یہ ملک اس لیے بنا تھا کہ یہاں ایک آئین نافذ ہوگا، اسلام کا نظام عدل نافذ ہوگا، مگر آج74 سال ہوگئے قوم اسلام اور عدل سب کے لیے کی راہ دیکھ رہی ہے، نوجوان نسل روزگار کی تلاش میں ہے، ہر حکومت کو ماہرین مل جاتے مگر قوم کو امن، چین سکون، مضبوط معیشت اور عدل نہیں مل رہا، غریبوں کے پلاٹوں پر قبضے ہوجائیں تو کوئی باہر نہیں نکلتا، لاہور میں ٹائون شپ سے لے کر ہر بستی تک قبضہ مافیا ہے، لاہور کی سیاسی قیادت اس کا حصہ بنی ہوئی ہے اور قبضہ مافیا نے لاہور کو درمیان سے تقسیم کرنے والی نہر کی طرح تقسیم کررکھا ہے ہر علاقے میں قبضہ مافیا ہے یہ ایک دوسرے کے کام میں مداخلت نہیں کرتے اور حکومت ان پر ہاتھ نہیں ڈال سکتی کہ سب حکومت کا حصہ ہیں، بس یوں ہی چل رہا ہے سارا نظام، غریبوں کی کچھ گزر گئی ہے، کچھ گزر جائے گی، اور یوں زندگی تمام ہوجائے گی، ان سیاسی جماعتوں کے ہاتھوں ملک کا نظام درست ہونے کی امید اور توقع نہیں ہے، ہر سیاسی جماعت تبدیلی کے نئے لبادے میں آتی اسے کچھ سرپرست مل جاتے ہیں جو اسے اقتدار تک لاتے ہیں اور عوام کے ووٹ پہلے آر ٹی ایس کی نذر ہوئے اور ای وی ایم آگئی ہے۔ اللہ اللہ خیر صلہ