یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت
پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیم مساوات
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندئہ مزدور کے اوقات
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟
دنیا ہے تری منتظر روز مکافات
پاکستان میں مزدور تحریک کے فروغ میں سب سے بڑی رکاوٹ بذات خود مزدور قیادتیں ہیں جن کی ایک بھاری اکثریت مزدور تحریک میں حکمران طبقے اور ریاستی اشرافیہ کی براہ راست دلالی کر رہی ہے۔ یہ مزدور لیڈر نہیں بلکہ چھوٹے چھوٹے ذاتی مفادات پر بکے ہوئے بزدل، کرپٹ اور مفاد پرست غداروں کا ایک ٹولہ ہے جو محنت کش طبقے کے کندھوں پر سوار ہے۔ ان کی ایک بڑی اکثریت تو باقاعدہ حکمرانوں اور مالکان کو پلاننگ کر کے دیتی ہے کہ کس طرح محنت کشوں کو زیادہ بہتر طریقے سے دھوکہ دیا جا سکتا ہے۔ یہ لوگ اپنے آقاؤں کے حکم پر محنت کشوں کو حکومت اور ریاست کی نام نہاد طاقت سے ڈرانے، ان میں بد حوصلگی اور مایوسی پھیلانے، مزدور تحریک کو گول دائروں میں گھمانے اور لایعنی مذاکرات میں اُلجھاکر تھکانے کے ماہر ہیں اور ان حربوں کا استعمال کرتے ہوئے کئی ایک جرأت مند تحریکوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپ چکے ہیں۔ اگر کبھی ان کو مجبوراً حرکت میں آنا بھی پڑے تو اس کی وجہ یا تو نیچے سے پڑنے والا دباؤ ہوتا ہے یا پھر اپنی لیڈری اور کرپشن کو بچانے اوراپنی قیمت بڑھوانے کا لالچ۔ ایک لمبے عرصے تک مزدور تحریک کو غیر نظریاتی رکھنے کے جرم میں بھی ان لوگوں کا ایک اہم کردار ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج مزدور تحریک اپنے سیاسی و معاشی نظریات(سوشلزم) سے محروم ہو چکی ہے اور اسی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر یہ رہنما نہ صرف تحریک کی طبقاتی اتحاد کے آڑے آ رہے ہیں، محنت کشوں کے طبقاتی شعور کی بڑھوتری میں رخنہ انداز ہیں بلکہ دھڑلے کے ساتھ تحریک سے کھلی غداریاں بھی کر رہے ہیں۔ اس تمام صورتحال کے نتیجے میں یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان کی مزدور تحریک ان غدار قیادتوں سے نجات حاصل کیے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتی۔ وقت آ گیا ہے کہ ان غلیظ لوگوں کو دھکے مار کر تحریک سے نکال باہر کیا جائے اورمحنت کشوں کی نئی، ایمان دار، دلیر اور جرات مند قیادت اُبھر کر سامنے آئے۔ یقینا تطہیر کا یہ عمل کسی لگے بندھے فارمولے کے تحت نہیں کیا جا سکتا بلکہ یہ جدوجہد کے دوران ہی وقوع پذیر ہو گا۔
پاکستان میں بھی محنت کش اور ان کے قائدین نے مزدوروں کے حقوق کے تحفظ، ملک سے آمریت کے خاتمے اور جمہوریت کی بحالی اور اْس کے استحکام کے لیے تاریخی جدوجہد اور قربانیاں پیش کی ہیں۔ بین الاقوامی مزدور تحریک کے پس منظر میں اگر ہم پاکستان میں محنت کشوں کی اور ٹریڈ یونین تحریک کی آج کی عمومی صورت حال کا سرسری جائزہ لیں تو ہم اس نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ گذشتہ 2دہائیوں سے ہمارے ہاں یہ تحریک تقریباً غیرمتحرک ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس دوران بھی بعض شہروں اور صنعتوں میں ٹریڈ یونینز اور اْن کے مقامی طور پر قائم کیے گئے۔ اتحادوں نے حوصلہ مندی کے ساتھ انفرادی لڑائیاں لڑی ہیں۔ آج بھی پاور سیکٹر کے ملازمین پرائیویٹائزیشن کے حوالے سے اس کے خلاف میدان عمل میں موجود ہیں۔
مگر بحیثیت مجموعی (ماسوائے مرحوم مزدور راہ نما ایس پی لودھی کی قیادت میں آئی آراو2002کے خاتمہ کے لیے چلنے والی تحریک) گزشتہ 20سالوں میں کوئی بڑی ملک گیر سطح کی منظم ٹریڈ یونین تحریک اُبھر کر سامنے نہیں آسکی۔ پرائیویٹائزیشن کے خلاف 1991 میں ایک بڑا ٹریڈ یونین اتحاد قائم ہوا تھا، جس میں ملک بھر سے مختلف صنعتوں کی 160اجتماعی سودے کار ٹریڈ یونینز شامل تھیں اور اس اتحاد نے قومی سطح پر ایک روزہ ہڑتال کا جرأت مندانہ اقدام کیا، لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ جہاں تک پرائیویٹائزیشن کے عمل کو روکے جانے کا تعلق تھا وہ مقصد یہ اتحاد بہرکیف حاصل نہیں کرسکا۔ آج نجکاری ایک مرتبہ پھر ایک بڑے مسئلے کی شکل میں ٹریڈ یونین تحریک کے سامنے ہے لیکن پرائیویٹائزڈ ہونے والی صنعتوں کی مزدور تنظیموں کے مابین اشتراک عمل یا اتحاد کی کوئی صورت حال ابھی تک سامنے نہیں آئی۔
ٹریڈ یونین تحریک اور محنت کشوں کے موجودہ عمومی حالات، یہ ایک تشویش ناک مسئلہ ہے۔ ملک میں ہزاروں ٹریڈ یونین اور سیکڑوں لیبر فیڈریشنز کی موجودگی کے باوجود محنت کش انتہائی نامساعد حالات سے دوچار ہیں۔ ایک محتاط انداز ہے کے مطابق پاکستان میں محنت کش طبقہ کم ازکم 6کروڑ کی تعداد میں موجود ہے، جب کہ ان میں سے بہ مشکل 1.5 فی صد ہی ٹریڈ یونین تنظیموں میں شامل ہیں۔ ٹھیکے داری نظام، آؤٹ سورسنگ اور تھرڈ پارٹی ایمپلائمنٹ سسٹم نے ٹریڈ یونین تحریک کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔
وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنے اپنے دائرئہ اختیار میں کم ازکم اْجرت مقرر کرنے کا اعلان تو کرتی ہیں، مگر یہ شکایت عام ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر کے 70فی صد اداروں میں ان پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا اور حکومت کے پاس کوئی ایسی مشینری موجود نہیں جو اس اعلان پر مکمل اور موثر طور عمل درآمد کروائے۔ مزدوروں کی فلاح و بہبود اور انہیں طبّی سہولیات، پنشن، رہائش اور دیگر سہولتوں کی فراہمی کے لیے متعدد ریاستی ویلفیئر ادارے قائم ہیں، لیکن ان کی کارکردگی کے بارے میں شکایات زبان زد عام ہیں۔
ایک بہت بڑا المیہ یہ ہے کہ مختلف صنعتی اور پرائیویٹ اداروں میں کام کرنے والے مزدوروں کی اکثریت کو ملازمتوں کے تقررنامے ہی جاری نہیں کیے جاتے، جس کی وجہ سے وہ ریاستی ویلفیئر اداروں سے اپنے لیے کسی قسم کی سہولت حاصل ہی نہیں کر سکتے۔ گزشتہ 20سالوں کے دوران پرائیویٹائزیشن اور ڈاؤن سائزنگ کے نتیجے میں اور آؤٹ سورسنگ کا نظام متعارف کرائے جانے کی وجہ سے ٹریڈ یونین کی ممبر شپ میں زبردست کمی آئی ہے۔
بڑے بڑے تجارتی اور صنعتی ادارے جن میں ٹریڈیونین کی ممبر شپ ہزاروں کی تعداد میں ہوتی تھی، اب سْکڑ کر سیکڑوں میں رہ گئی ہے۔ پاکستان میں اب سے پندرہ، بیس سال قبل کمرشیل بینکس میں بھی انتہائی موثر ٹریڈ یونینز موجود تھیں اور ان کی ممبر شپ کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ ایک وقت مجموعی طور پر 80 ہزار تک جا پہنچی تھی۔ آج یہ تعداد 10ہزار سے بھی کم ہے۔ تقریباً بائیس تئیس سالوں سے پرائیویٹائزڈ کمرشیل بینکس میں کلریکل کیڈر میں بھرتیوں کا سلسلہ ہی بند اور یوں ٹریڈ یونین تحریک کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے۔ ٹیکسٹائیل، گارمنٹس، سیمنٹ، گھی، فوڈز، اسٹیل ملز، پائپ ملز، پاور سیکٹر، ٹرانسپورٹ، ریلویز، ایئر لائنز، فوڈ فیکٹریز، پرنٹنگ پریس اور ہوٹلز اور دیگر صنعتوں میں بھی کم و بیش یہی صورت حال ہے۔
گزشتہ سالوں میں ملک میں فیکٹریز میں آگ لگنے کے بھی کئی واقعات پیش آئے، جن میں سے ایک انتہائی خوفناک اور المناک واقعہ بلدیہ ٹاؤن کراچی کی ایک گارمنٹس فیکٹری میں پیش آیا، جس میں سیکڑوں غریب محنت کشوں کی جانیں گئیں۔ اس سانحے نے مزدوروں کے حوالے سے قائم ریاستی فلاحی اداروں اور محکمہ محنت کی کارکردگی کا بھانڈا بھی پھوڑ دیا۔
اس سانحے میں جاںبحق اور زخمی مزدوروں کو اْن کے معاوضے کی ادائیگی کے لیے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ (پائلر) اور مزدور تنظیموں نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر بھی بڑی کاوشیں کی اور اْن کے حقوق دلوائے بھی، حکومت نے بھی اس ضمن میں امداد فراہم کی، لیکن یہ سارے وہ فرائض تھے کہ جنہیں ادا کرنے کی ذمہ داری انتظامیہ اور حکومت کے بعد سب سے زیادہ اس ادارہ کی ٹریڈ یونین پر عائد ہوتی تھی، مگر افسوس کہ اْس ادارے میں ٹریڈ یونین کا وجود ہی نہیں تھا، جو ٹریڈ یونین تحریک کے زوال کی ایک افسوس ناک مثال ہے۔
پاکستان کی مسلسل انحطاط پذیر ٹریڈ یونین تحریک گذشتہ کم از کم 20/25سالوں سے موضوع بحث ہے اور اْسے منظم کرنے کی عملی کاوشیں بھی ہوتی رہی ہیں۔
موجودہ صورت حال تقاضا کرتی ہے کہ ٹریڈ یونین تحریک سے وابستہ قائدین اْس کی ملک گیر سطح کی یکجائی کی کوششیں جاری رکھیں۔ محنت کش عوام کی پارلیمنٹ میں حقیقی نمائندگی کے لیے آئینی ترامیم کی جائیں۔
وفاق اور صوبوں کی سطح پر ہر سال اپریل یا مئی کے مہینوں میں وفاقی اور صوبائی سہ فریقی لیبر کانفرنسز منعقد کی جائیں۔ حال اور مستقبل کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے وزارت محنت اور اْس سے ملحق اداروں میں بڑے پیمانے پر اصلاحات لائی جائیں۔
آخر میں اس امید کے ساتھ علامہ اقبال کے ان اشعار پر اختتام کرتا ہوں
دْنیا نہیں ہے مردِ جفاکش کے لیے تنگ
چیتے کا جِگر چاہیے، شاہین کا تجسْس
اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخ امرا کے در و دیوار ہلا دو
گرماؤ غلاموں کا لہو سوز یقیں سے
کنجشک فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو
جس کھیت سے میسر نہ ہو دہکاں کو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو
ناخوش ہوں بیزار ہوں میں سنگ مر مر کی سلوں سے
میرے لئے تو مٹی کا حرم اور بنا دو