افغانستان میں طالبان کے اقتدار کو چار ماہ کا عرصہ ہوا چاہتا ہے۔ مگر اس ملک کی معیشت تباہ حال ہے جس کی ایک بڑی وجہ امریکا کی جانب سے اثاثوں کو منجمد کرنا تو دوسری دنیا بھر کی جانب سے آنے والی امداد کا رُک جانا ہے۔ پاکستان ذمے داری کا احساس کرتے ہوئے بین الاقوامی برادری کو اس کی ذمے داریاں یاد دلا رہا ہے، کیوں کہ قریب ترین پڑوسی کی حیثیت سے کسی بھی بے چینی یا معاشی بدحالی کی صورت میں افغانیوں کی طرف ایک بار پھر پاکستان کی طرف ہجرت شروع ہوسکتی ہے جسے روکنا نہ صرف مشکل ہوگا بلکہ ناممکن ثابت ہوسکتا ہے۔ ہاں البتہ اس کا ایک فوری نتیجہ یہ ضرور ہوگا کہ پاکستان کی زبوں حال معیشت کے تابوت میں آخری کیل ٹھک جائے۔
بین الاقوامی برادری طالبان کی طرف سے انسانی حقوق کے احترام کے نام پر شریعت کے احکامات کو پامال کرنے کی خواہاں ہے اور بلاوجہ ایسی شرائط لگائی جارہی ہیں جن کا موجودہ حالات میں پورا کرنا بہت مشکل ہے جس ملک میں لوگ نان شبینہ کے حصول میں کوشاں ہو وہاں خواتین کی کرکٹ، ڈراموں میں خواتین کے کردار، فلموں میں شرمناک مناظر، سرکاری اداروں میں خواتین کی شراکت وغیرہ کی بات کی جارہی ہے۔ مغرب کے آلہ کار کے طور پر ملالہ جیسی شخصیات خواتین کے حقوق کی بات کرتی ہیں۔ دنیا جو کچھ چاہتی ہے من و عن اگر ایسا نہ بھی ہوسکے تو بہت حد تک اس کی خواہشات پوری ہوسکتی ہیں مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ دنیا بھی افغانیوں کے دکھ کو سمجھتے ہوئے انہیں معاشی طور پر تنہا کرنے کی پالیسی سے باز رہے۔
آئیے ذرا ماضی کے جھروکوں سے افغانستان کی تاریخ کا جائزہ لیں کہ جب امریکا کی خواہش پر مجاہدین نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے، یوں سوویت یونین کی شکست نے امریکی مقاصد کی تکمیل کا پھریرا لہرایاتو امریکا نے بھی پاکستان کی طرف سے آنکھیں پھیر لیں۔ یہی وجہ تھی کہ افغانستان میں کوئی بھی مستحکم حکومت قائم نہ ہوسکی، پہلے مجاہدین پنجہ آزمائی کرتے رہے یہاں تک کہ شمالی اتحاد جسے روس کی حمایت حاصل تھی۔ کابل حکومت کو متزلزل کرتا رہا۔ بالآخر طالبان نے اقتدار کی مسند جا سنبھالی۔ یہ گروہ جو عوامی حمایت کا حامل تھا افغانستان میں امربالمعروف ونہی عن المنکر کے نفاذ میں کامیاب ہوا۔ یہ الگ بات کہ انتہا پسندی ان کی مقبولیت کا گراف گرانے لگی۔ طالبان کے دور میں امن وامان اپنے عروج پر تھا۔ پوست کی کاشت خاصی حد تک کم ہوچکی تھی۔ محض دنیا کے تین ممالک نے ان کی حکومت کو تسلیم کیا مگر اس کے باوجود ایک مضبوط، مستحکم حکومت کے قیام میں طالبان کامیاب رہے۔ تقریباً ایک دہائی پر مشتمل افغانستان کا یہ زمانہ اس بات کا متقاضی تھا کہ اقوام عالم افغانستان کی حکومت کے استحکام میں اپنا کردار ادا کرتیں، ساتھ ہی مالی امداد اور انفرااسٹرکچر کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتیں۔ رہی مجاہدین کی ناچاقیاں یا طالبان کی متشدد پالیسیاں تو ان میں ٹھیرائو اور تبدیلی آنے کے امکانات موجود تھے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس موقع پر دنیا نے افغانستان کو فراموش کردیا تھا تو بے جا اور غلط نہ ہوگا۔ پاکستان لاکھوں افغان مہاجرین کے بوجھ تلے دبا تھا۔ دنیا کی عدم دلچسپی نے افغان مہاجرین کے ساتھ آنے والی برائیوں، اسلحہ اور منشیات کے ذریعے پاکستان میں اپنی جڑیں پھیلائیں اور پھر مضبوط کیں۔ یہی وجہ تھی کہ پاکستان افغانستان میں بننے والی حکومت پر اثر انداز ہونے اور اسے اپنا ہمنوا بنانے میں کوشاں رہا۔
9/11 کے واقعات نے امریکا کو افغانستان پر چڑھ دوڑنے کا ایک سنہری موقع عطا کیا جس کے لیے ہماری سرزمین استعمال کی گئی اس کے بدلے میں ہمیں کیا ملا؟ محض وعدے اور وہ بلند بانگ دعوے جن کی حقیقت تاحال تعبیر کی متلاشی رہی۔ ہم نے فضائی راہداری اور رسد کے ذرائع فراہم کیے اور افغانستان اور پاکستان کے درمیان اپنی طویل ترین سرحد کو غیر محفوظ بنالیا۔ اس موقع پر ایک لاکھ سے زائد افواج ان سرحدی چوکیوں پر نگرانی کا فریضہ انجام دیتے ہوئے ایک طرف قبائلیوں کے غم و غصے کا سامنا کرتی رہی تو دوسری طرف افغانستان، امریکا اور مغرب ہمیں غصہ بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے مزید کچھ کرنے کا حکم صادر کرتے رہے۔ جب پاکستانی حکومت باڑھ لگانے اور بارودی سرنگیں بچھانے کی بات کرتی تو یہ حربہ بھی انہیں قبول نہیں تھا۔ ہماری نیک نیتی پر شبہ کیا جاتا تھا اور ہمیں اس قدر پیچھے دھکیلا جارہا تھا کہ دیوار سے جالگیں۔
اس دوران جو امداد ہمیں دی گئی وہ ہماری قربانیوں، امریکی حمایت اور اپنے بھائیوں کا خون بہانے کے مقابلے میں اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف تھی۔ 9/11 سے قبل ہم بین الاقوامی برادری کے جس قدر مقروض تھے کم و بیش وہی صورت حال آج بھی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حصہ لینے اور فرنٹ لائن اسٹیٹ کا کردار ادا کرنے کے بعد ہمیں کیا ملا؟ خودکش دھماکے، قبائلی علاقوں میں بے چینی، فضائی بمباری، بلوچستان کی بدامنی، بے روزگاری، مہنگائی، غربت میں اضافہ۔ اس سب میں تو ہم پہلے ہی خودکفیل تھے، اس تکلف کی کیا ضرورت تھی؟ ہم نے تو امریکا اور مغرب کا ساتھ دے کر اپنے مسائل میں مزید اضافہ ہی کیا۔ یہ وہ عوامل ہیں جو حقیقت پر مبنی ہیں افغانستان ایک بار پھر دوراہے پر کھڑا ہے۔ اقوام عالم طالبان حکومت کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں۔ آئی ایم ایف اور دیگر اداروں سے ملنے والی امداد منجمد کردی گئی ہے۔ گزشتہ دنوں ڈرائی فروٹ فروخت کرکے جو رقم ملی اس سے سرکاری ملازمین کی 3 ماہ کی تنخواہیں ادا کردی گئیں ہیں۔ خدشہ یہ ہے کہ 9/11 جیسا کوئی واقعہ پیش نہ آجائے اور کہیں ایک بار پھر امریکا اور مغرب افغانستان پر چڑھ دوڑیں جس سے براہِ راست پاکستان متاثر ہوگا۔ اگر امریکا مغرب اس سلسلے میں ہٹ دھرمی پر قائم رہنا چاہتے ہیں تو بھی OIC کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے کیوں کہ اگر بروقت افغانستان کی امداد نہ کی گئی تو تمام عالم اسلام اس سے متاثر ہوگا۔ کاش ارباب اختیار کسی بڑے حادثے سے قبل ہوش میں آجائیں۔