پیپلزپارٹی آمریت کی پیداوار ہے،بلاول ابھی نوارد ہیں انہیں کچھ علم ہی نہیں

695

اسلام آباد (میاں منیر احمد ) پیپلزپارٹی آمریت کی پیداوار ہے‘بلاول ابھی نووارد ہیں‘ انہیں علم ہی نہیں وہ کیا کہہ رہے ہیں‘ آصف زرداری نے پارٹی قیادت سنبھالنے کے بعد جو بھی فیصلے کیے ہیں وہ جمہوریت کے لیے نہیں بلکہ صرف اقتدار میں آنے اور اس میںرہنے کے لیے کیے ہیں‘ پی پی کو جمہوریت کا ترجمہ کہنا درست نہیں‘ بھٹو اس آمرکی پیداوار ہیں جس نے قائداعظم کی بہن کو دھاندلی سے شکست دی‘ صوبائی عصبیت کو پروان چڑھایا اورعوامی خدمت نہیںکی۔ان خیالات کا اظہار تحریک انصاف کے مرکزی رہنما انجینئر افتخار چودھری ،ممتاز تجزیہ کار اعجاز احمد، تجزیہ کار مظہر طفیل اور ہاکی کے مایہ ناز کھلاڑی اولمپیئن رائو سلیم ناظم نے جسارت کے اس سوال کے جواب میںکیا کہ ’’ بلاول کا یہ کہنا کتنا درست ہے کہ پیپلز پارٹی اس ملک میں جمہوریت کا ترجمہ ہے؟‘‘ انجینئر افتخار چودھری نے کہا کہ بلاول ابھی سیاست میں نووارد ہیں انہیں نہیں علم کہ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو ایک آمر کی پیداوار ہیں‘ آمر بھی ایسا جس نے جمہوریت کو قتل کیا‘ قائد اعظم کی بہن کو دھاندلی سے شکست دی‘ پیپلز پارٹی نے جمہوریت کے نام پر صوبائی عصبیت کو پروان چڑھایا بھٹو کو جمہوریت کے چاہنے والے ایک فاشسٹ سے کم نہیں سمجھتے‘ سندھ فاشزم کا شکار ہے‘ پیپلز پارٹی آئندہ الیکشن میں شاید پہلے سے بہتر پرفارم کرے مگر یہ نقصان ن لیگ کا ہوگا‘ قومی اداروں کی تباہی کی ذمے داری اسی پارٹی پر زیادہ عاید ہوتی ہے‘ میرے نزدیک یہ سوال ایک مذاق سے کم نہیں۔ اعجاز احمد نے کہا کہ بلاول زرداری کچھ زیادہ ہی کہہ گئے تاہم جمہوریت کے لیے پیپلزپارٹی کی قربانیاں ہیں، بھٹو پھانسی پاگئے اور محترمہ بے نظیر بھٹو لیاقت باغ میں قتل کر دی گئیں، پیپلزپارٹی کے دور میں سیاسی گرفتاریاں نہیں ہوئیں جبکہ نواز شریف نے ایک مختلف طرز عمل دکھایا تھا، محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھی کہا گیا کہ وہ شریف خاندان کی خواتین کو گرفتار کریں مگر انہوں نے یہ مشورہ نہیںمانا تھا‘ پیپلز پارٹی نے حکومت میں آکر روز گار دیا ہے بہر حال جو بلاول نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ وہ کچھ زیادہ ہی کہہ گئے‘ جیسے تحریک انصاف اب کہہ رہی ہے کہ اس نے میڈیا کو آزادی دی اس نے کہاں میڈیا کو آزادی دی ہے؟ مظہر طفیل نے کہا کہ یہ بات موجودہ حالات میں تو بالکل سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ پارٹی کی قیادت آصف علی زرداری نے سنبھالنے کے ساتھ ہی جو سیاسی فیصلے کیے تھے وہ صرف اقتدار میں رہنے کے لیے تھے اسی طرح بلاول کے پاس جب سے پارٹی قیادت آئی ہے‘ کون سا ایسا سیاسی فیصلہ کیا گیا ہے جس کا براہ راست فائدہ عوام کو ہوا ہو ؟ بینظیر بھٹو مرحومہ کی سیاسی بصیرت اپنی جگہ مگر بے نظیر کی وفات کے بعد کیا پیپلزپارٹی نے ویسی سیاست کی جو بھٹو یا بے نظیر کرچکی تھیں‘ اس کا جواب نفی میں ہے گزشتہ انتخابات میں سندھ کے علاوہ دیگر صوبوں میں پیپلزپارٹی کی کارکردگی سب کے سامنے ہے‘ ملک کے موجودہ حالات میں جب عوام کو سیاسی جماعتوں کی مدد کی ضرورت تھی تو ابھی تک کسی بھی اپوزیشن جماعت نے وہ کردار ادا نہیں کیا جو انہیں کرنا چاہیے تھا‘ عوام کے مسائل، مہنگا ئی میں اضافہ اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری نے عوام کو تقریباً تمام سیاسی جماعتوں سے متنفر کردیا ہے‘ ایسی صورتحال نہ صرف سیاسی جاعتوں کے لیے خطرے کا باعث ہے بلکہ اس سے ملک میں انارکی پیدا ہونے کے بھی شدید امکانات ہیں‘ ایسے میں کون کسی سیاسی جماعت کو تمغہ حسن کارکردگی دے گا یہ سب سے بڑا سوالیہ نشان ہے۔ ہاکی کے مایہ ناز کھلاڑی اولمپیئن رائو سلیم ناظم کے سامنے جب یہ سوال رکھا گیا تو انہوں نے اپنے جواب کے لیے تاریخی کتب کا حوالہ لیا اور انہی کا حوالہ شائع کیا جا رہا ہے‘ بھٹو کی غداری کے عنوان سے لکھی ہوئی کتاب، جسے اے جی نورانی نے لکھا جس میں درج ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو ان لوگوں میں سے تھے جو خواہ کتنے ہی باصلاحیت کیوں نہ ہوں مگرفطری طور پر سچے نہیں ہوتے‘ بھارت میں اس نے یہ ثابت کرنے کے لیے مقدمات کی پیروی کی کہ وہ ایک بھارتی شہری ہیں،جس کی جائداد کو خالی قرار دے کر حکومت ہند قبضہ نہیںکرسکتی ہے‘اسی مدت کے دوران وہ پاکستان میں اسی جائداد کے معاوضے کا دعویٰ حکومت سے کرتے رہے۔