مشاورت کا دائرہ

348

ابن خویز منداد (وفات: 390ھ) والیانِ ریاست پر یہ ذمے داری عائد کرتے ہیں کہ وہ ریاست کی ہر سطح پر مشاورت کا عمل انجام دیں، دینی امور کے سلسلے میں علمائے دین سے مشورہ کریں، جنگ کے سلسلے میں فوج کے سالاروں سے مشورہ کریں، عمومی مفاد کے بارے میں عوام کے نمائندہ افراد سے مشورہ کریں، ملک کی تعمیر وترقی کے لیے وزرا اور عہدے دارانِ حکومت سے مشورہ کریں۔ غرض مشاورت کا عمل ہر سطح پر انجام پانا چاہیے۔ دورِ جدید میں جمہوری قدروں کے سلسلے میں بھی مثالی بات یہ سمجھی جاتی ہے پورا سماج جمہوری عمل سے مربوط رہے اور جمہوری قدروں کا آئینہ دار بن جائے۔ (قرطبی)
بہرحال اس پر توجہ دینی چاہیے کہ مشاورت کا عمل سماج کی ہر سطح تک ضرور پہنچے، تاکہ شورائیت نظام سے آگے بڑھ کر کلچر اور اجتماعی مزاج بن جائے۔ یہ درست ہے کہ جدید زمانے میں اداروں اور تنظیموں کی اپنی مشاورتی مجلسیں ہوتی ہیں، لیکن ان اداوں اور تنظیموں تک مشاورتوں کے محدود رہنے سے شورائیت کا عام کلچر نہیں بن پاتا ہے۔ شورائیت کو ایک سماجی کلچر بنا دینے کے لیے ضروری محسوس ہوتا ہے سماج کی مختلف اکائیوں اور اجتماعیتوں میں عمومی مشاورت کا عمل انجام دیا جائے۔ بطور مثال:
تعلیم گاہوں میں طلبا کے درمیان۔
گھروں میں بچوں کے درمیان۔
مسجدوں میں نمازیوں کے درمیان۔
تحریکوں اور جماعتوں میں عام ارکان بلکہ کارکنان کے درمیان بھی۔
اور محلے کے مختلف مسائل حل کرنے کے لیے محلے کے تمام افراد کے درمیان مشورے کی مجلسیں منعقد کرنا معمول بن جانا چاہیے۔
مشاورت کے لیے مطلوبہ اوصاف
مشاورت ایک نازک ذمے داری ہے، اور ہر ذمے داری کچھ اوصاف کا تقاضا کرتی ہے۔ مشاورت کے عمل میں شامل ہونے والوں کو اپنے اندر اس کے لیے مطلوب اوصاف کو ترقی دینے کی کوشش کرنی چاہیے۔
قرطبی نے علما کا یہ قول نقل کیا ہے کہ جس سے دین کے معاملات میں مشورہ لیا جائے اسے عالم اور دین دار ہونا چاہیے۔ اور ایسا فرد عقل مند تو ہوتا ہی ہے۔ حسن بصری کے بقول جسے عقل میں کمال حاصل نہیں اسے دین میں کمال حاصل نہیں ہوسکتا ہے۔ جب کہ دنیا کے معاملات میں جس سے مشورہ کیا جائے اسے عقل مند، تجربے کار اور مشورہ لینے والے سے محبت ومودت کرنے والا ہونا چاہیے۔ (قرطبی)
معلوم ہوا کہ اگر مشاورت کی قدر کو عام کرنا ہے تو مشاورت کے لیے مطلوب ان صفات کو عام کرنا بھی ضروری ہوگا۔ دین کے علم کو فروغ دیا جائے۔ دین داری کو پھیلایا جائے۔ ذہانت و دانش مندی کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ تجربات کی قدر کی جائے اور ان کے لیے میدان اور مواقع بہم میسر کیے جائیں نیز محبت ومودت کی فضا بنائی جائے۔ جب ان صفات کا دور دورہ ہوگا تو مشاورت کی قدر کو سماج میں صحت بخش فضا میسر آئے گی اور بہتر طریقے سے پھلنے پھولنے کا موقع ملے گا۔