جدیدیت اور اسلام کے تصوراتِ زندگی میں جو فرق ہے، ان میں ایک نمایاں فرق خاندان کے ادارے کے حوالے سے ہے۔ اسلام، خاندان کے ادارے کو اہمیت دیتا ہے۔ صنفی عدل کے حوالے سے اسلام کے اور جدید نسائی تحریکات (Movement Feminist) کے تصورات میں جو اصل فرق ہے، اس کا تعلق درج ذیل تین سوالات سے ہے:
1۔مرد اور عورت مل کر ایک خاندان بنائیں، کیا یہ ایک تمدنی ضرورت ہے؟ کیا بچوں کا یہ حق ہے یا نہیں کہ انھیں پرورش کے لیے ایک شفیق خاندان کا آسرا میسر ہو؟
2۔کیا خواتین کا علیحدہ تشخص ہے یا نہیں؟ کیا صنفی فرق صرف جسمانی ساخت کا فرق ہے یا سماجی اور نفسیاتی سطحوں پر بھی مردوں اور عورتوں کے درمیان کوئی فرق پایا جاتا ہے؟ یعنی کیا دونوںکی صورت حا ل ایک جیسی ہے یا الگ الگ ہے؟
3۔اگر خاندان کی ضرورت ہے تو وہ کیسے چلے؟ اس میں مرد اور عورت کا الگ الگ کردار اور ذمے داریاں ہوں یا نہ ہوں؟ کیا مرد اور عورت کے الگ الگ کردار، مصنوعی طور پر معاشرے کے پیدا کردہ ہیں یا فطری حقائق کے نتیجے میں پیدا ہوئے ہیں؟
بہت سے فیمی نسٹ ان سوالوں کا جواب نفی میں دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک خاندان ایک ’پدرشاہی‘ (Patriarchal) ادارہ ہے۔ اس لیے مساوات کا تقاضا ہے کہ اسے ختم کردیا جائے۔ مردوں اور عورتوں کے درمیان فرق صرف حیاتیاتی ہے، اور یہ حیاتیاتی فرق بھی ختم ہونا چاہیے‘‘۔ مشہور فرانسیسی فیمی نسٹ سیمون ڈی بوایر اپنی کتاب Sex Second The (دوسری جنس) میں عورت کے جسم اور اس کے حیاتیاتی وجود ہی کو ’’عورت کے ساتھ ناانصافی قرار دیتی ہے‘‘۔ اس کے بقول چونکہ تولید کے عمل میں جن مشقتوں سے عورت کو گزرنا پڑتا ہے، اْن سے مرد نہیں گزرتا۔ اس میں مساوات کے لیے ضروری ہے کہ اس حیاتیاتی رکاوٹ پر قابو پایا جائے۔ حقیقی انصاف اس وقت ہوگا جب افراد کو اپنی جنس منتخب کرنے کا حق حاصل ہو‘‘۔
ان معاشروں کے نزدیک: ’’مردوں اور عورتوں کے الگ الگ سماجی رول، روایتی معاشروں کے پیدا کردہ ہیں اور روایتی سماجوں میں ہمیشہ مردوں کا تسلط رہا ہے۔ اس لیے عورتوں کے استحصال کے لیے انھوں نے یہ تصورات گھڑ رکھے ہیں۔ اول تو خاندان ضروری نہیں ہے، لیکن اگر مرد اور عورت مل کر ہی خاندان بنائیں تو اس میں مرد کا الگ رول اور عورت کا الگ رول ضروری نہیں۔ ہرکام جو مرد کرسکتا ہے، وہ عورت بھی کرسکتی ہے۔ اس لیے سماج کا پیدا کردہ ہر فرق ختم ہونا چاہیے۔ ان افکار کے نتیجے میں تشکیل پانے والا تصور یقیناً اس تصور سے مختلف ہوگا جو خاندان کے ادارے کی اہمیت اور اس کے لازمی اور فطری تقاضوں کے شعور کے نتیجے میں تشکیل پاتا ہے۔ ان ’نسائی تصورات‘ نے مغربی معاشروں میں عورتوں اور مردوں کے درمیان بظاہر غیر فطری مساوات تو قائم کردی، لیکن خاندان اور خود عورت کی ذات کو اس کے نتیجے میں پہنچنے والے نقصانات اب بہت واضح بھی ہوچکے ہیں۔
صنفی کردار اور خاندان
اسلام کے مطابق مرد اور عورت کو اللہ نے الگ الگ سماجی کردار ادا کرنے کے لیے پیدا کیا ہے۔ دونوں اصناف سماجی حیثیت کے لحاظ سے یقیناً برابر ہیں، لیکن ان کے جسم، نفسیات اور معاشرتی کردار اور ذمے داریوں میں فرق ہے۔ مرد اور عورت ایک دوسرے کے لیے تکمیل کنندہ (complementary) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ حیاتیاتی لحاظ سے بھی اور معاشرتی لحاظ سے بھی۔ مرد عورت کے بغیر نامکمل ہے اور عورت مرد کے بغیر۔ اللہ نے ان کے درمیان حیاتیاتی فرق پیدا کیا ہے، اس کی وجہ ہی یہ ہے کہ ان دونوں سے الگ الگ حیاتیاتی کردار اور ذمے داریاں بھی متوقع ہیں۔
نہ مرد اکیلے بچے پیدا کرسکتا ہے اور نہ بچوں کی پیدائش میں وہ کردار ادا کرسکتا ہے جو عورت کے لیے مخصوص ہے۔ اسی سے خود بخود سماجی فرق واقع ہوجاتے ہیں۔ بچوں کی پرورش میں بھی بعض کردار ایک عورت ہی ادا کرسکتی ہے، مرد ادا نہیں کرسکتا۔ ماں کی کوکھ سے پیدا ہونے کی وجہ سے اور اس کا دودھ پینے کی وجہ سے جو اُنس اور قربت بچے ماں کے تئیں محسوس کرتے ہیں، وہ باپ سے نہیں کرتے۔ بچوں کے باپ سے تعلق اور محبت کی نوعیت اور ماں سے تعلق کی نوعیت میں واضح فرق ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مردوں اور عورتوں کے درمیان فطرت نے صرف جسمانی فرق نہیں رکھے بلکہ مزاج اور نفسیات کے بھی واضح فرق رکھے ہیں۔ عام طور پر ایک مرد، عورت سے زیادہ جسمانی طاقت رکھتا ہے۔ عام طور پر شیر خوار لڑکے بھی ٹرک اور کار کے کھلونے اٹھاتے ہیں اور شیرخوار لڑکیاں، گڑیاں اٹھاتی ہیں۔ اسکول میں لڑکے کچھ اور مضامین میں اچھے ہوتے ہیں اور لڑکیاں کچھ دوسرے مضامین میں۔ ان کے دماغ واضح طور پر ایک دوسرے سے الگ ہوتے ہیں۔ یہ سب حقائق اس بات کی دلیل ہیں کہ مردوں اور عورتوں میں معاشرتی کردار کے اعتبار سے بھی فرق ہے۔جدید فیمی نسٹ تصور میں اور اسلام میں اصل فرق یہی ہے کہ اسلام کے نزدیک ’’خاندان ایک بڑی انسانی ضرورت ہے اور اس ادارے کا تحفظ ہونا چاہیے۔ خاندان کے اس ادارے کے تحفظ کا فطری طریقہ یہی ہے کہ مرد اور عور ت اپنے فطری دائروں میں اپنے اپنے کردار ادا کریں۔ دونوں کے کردار چونکہ الگ الگ ہیں، اس لیے اس حوالے سے انصاف کے تقاضوں میں کچھ نہ کچھ فرق ہوگا۔ کچھ خصوصی مراعات عورت کو اس کردار کی وجہ سے حاصل ہوں گی تو کچھ اضافی اختیارات مرد کو اس کے کردار کی وجہ سے۔ ماں کے حقوق باپ سے زیادہ ہیں۔ بیوی کو خصوصی معاشی مراعات حاصل ہیں۔ بیٹوں کے مقابلے میں بیٹیوں کی پرورش کا زیادہ ثواب ہے۔ دوسری طرف مرد کو قوام کی حیثیت میں بعض اضافی اختیارات حاصل ہیں۔ اس فرق کا مقصد یہ ہے کہ دونوں اصناف اپنے اپنے دائروں میں اپنے تمدنی فرائض بہتر انجام دے سکیں اور اس کے نتیجے میں ایک خوش حال خاندان اور ایک خوش حال معاشرہ وجود میں آسکے‘‘۔ اسلام میں صنفی عدل کے تصور کو سمجھنے کے لیے ان بنیادی تصورات کو سمجھنا ضروری ہے اور اس فرق کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے جو خاندان کے سلسلے میں اسلام کے وژن میں اور جدید فیمنسٹ وژن میں پایا جاتا ہے۔
چونکہ اسلام کے نزدیک خاندان، معاشرے اور تمدن کی بنیادی ضرورت ہے، اس لیے اس ضرورت کی تکمیل کے لیے اس نے مردوں اور عورتوں کے حقوق و فرائض میں بعض فرق رکھے ہیں۔ پیدایش و رضاعت کی اہم تمدنی ضرورت کی تکمیل کے لیے عورت کو پْرمشقت مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اور یہ فرق کسی معاشرے کا پیدا کردہ نہیں ہے بلکہ فطری ہے۔ بچوں کی یہ ضرورت ہے اور ان کا حق ہے کہ ان کی پرورش ماں کے شفیق آنچل کے زیر سایہ ہو۔ ماں سے جو قربت وہ محسوس کرتے ہیں اور جس طرح اس کا اثر قبول کرتے ہیں، اس کا تقاضا ہے کہ ان کی شخصیت ساز ی میں وہ اہم کردار ادا کرے۔ خاندان کی اہم اکائی اور ادارے کا نظم و انتظام بھی وقت اور توجہ چاہتا ہے۔ ان سب ضرورتوں کی تکمیل کا کام اسلام نے عورت کے سپرد کیا ہے۔
ان کاموں میں اور اس کی جسمانی و نفسیاتی خصوصیات میں گہری مطابقت ہے۔ یہ مطابقت سماجی اور تاریخی عوامل کی پیدا کردہ نہیں ہے، بلکہ فطرت کی پیدا کردہ ہے۔ چنانچہ اسلام نے ان فرائض کی انجام دہی کے لیے عورت کو معاشی ذمے داریوں سے فارغ رکھا ہے۔ خاندان کی کفالت شوہر کے ذمے ہے۔ بیوی اگر مال دار ہو تب بھی اس کی کفالت شوہر ہی کے ذمے ہے۔ مالی ضروریات کی تکمیل کے علاوہ بیوی کا تحفظ اور اس کی دل جوئی بھی شوہر کی ذمے داری ہے۔ قوّام کی حیثیت سے اس کا یہ بھی فریضہ ہے کہ وہ خاندان کی تمام ذمے داری قبول کرے اور اسے ادا کرے۔ اسلام نے عورت کو معاشی مصروفیت سے منع نہیں کیا، بلکہ اپنی بنیادی ذمے داری ادا کرتے ہوئے اور شریعت کے حدود کا لحاظ رکھتے ہوئے، وہ معاشی مصروفیت بھی اختیار کرسکتی ہے، لیکن یہ اس کی بنیادی ذمے داری نہیں ہے۔ اس طرح اسلام کی خاندانی اسکیم میں معاشرے اور تمدن کی اہم ضروریات کا لحاظ بھی ہے اور مرد، عورت اور بچوں کے ساتھ مکمل انصاف بھی۔
صنف کی بنیاد پر یہ تقسیمِ کار، مغرب زدہ خواتین کو اس لیے کھٹکتی ہے کہ فیمی نسٹ تصورات کی ایک اہم بنیاد نسوانی شخصیت اور نسوانی کردار کا استخفاف ہے۔ ان کے نزدیک ہوائی جہاز میں مسافروں کی خدمت اور دفاتر استقبالیہ پر مہمانوں کی دل جوئی تو قابل احترام مصروفیت ہے، لیکن نئی نسل کی تعلیم و تربیت اور خاندان جیسے بنیادی ادارے کا نظم و انصرام کوئی بڑا حقیر کام ہے۔ ان تصورات نے عورت کے تشخص، اس کے جذبات و نفسیات اور اس کے کردار کی قدر و منزلت کو اتنا گھٹا دیا کہ عورت اپنے عورت پن پر شرمندگی محسوس کرنے لگی۔ اسلام نے عورت ہی کو نہیں اس کے نسوانی وجود کو عزت و احترام بخشا ہے۔ اسلام میں عورت کو سماج میں قدر ومنزلت حاصل کرنے کے لیے مرد بننا ضروری نہیں ہے۔ لہٰذا خاندان کے استحکام کے لیے ناگزیر ہے کہ اسلام کا نہایت معتدل نقطۂ نظر عام کیا جائے۔